Translate   3 years ago

چاند اور دھول
---------------
13ویں قسط
---------------
پینسل اور غٹرغوں، غٹرغوں
-------------------
دن اور رات، رات اور دن ۔۔۔۔ کھیل کود، بھاگنا دوڑنا ۔۔۔ آگ اور پانی۔۔۔۔ خط اور زاویہ ۔۔۔ نرمی، گرمی، حدت اور تپش ۔۔۔ من موجی کی زات میں ھلچل پیدا ھو رھی تھی۔۔۔۔ ستارے، چاند، سورج۔۔۔ یہ سب کیا ھے؟۔۔۔ وہ گھنٹوں بیٹھا سوچتا۔

رات کو آسمان پر ستارہ ٹوٹتا ۔۔۔ اور بادلوں کی اوڑھ میں چاند مسکراتا رھتا۔ کوئی راستہ بھٹکا پرندہ لمبی چیخ کوکتا گزر جاتا۔

دن چڑھتا تو چھٹی والے دن ناشتے کو بعد من موجی ھاتھوں میں سکہ لیے شاہ جی کی پرچون کی دوکان پر پہنچ جاتا اور گولیوں ٹافیوں کو مُٹھی میں بھر لاتا۔ پھر مزے مزے سے کھاتا۔ وہ سوچتا کہ یہ سِکہ کیا ھے، جس کے بدلے میں اُسے چیزیں مل جاتیں ھیں؟ وہ یہ بھی سوچا کرتا تھا کہ کیا چاند بھی روپے کہ عوض مل سکتا تھا؟ ایسے کئی بے ربط سوالات اُس کے ذہین میں اُترتے رھتے تھے۔ من موجی جان چکا تھا یہ دنیا وہ نہیں جو نظر اتی ھے۔۔۔ دنیا میں روپے کی ایک قیمت ھے، جس سے چیزیں خریدی جا سکتیں ہیں۔ لیکن ابھی وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ انسان کی بھی قیمت ھوتی ھے، انسان بھی بِکتا ھے۔۔۔ انسان بھی خریدا جا سکتا ھے۔

محبت, من کا تحت الشعور موضوع تھا۔ وہ اندر ہی اندر "محبت" کا پُجاری تھا۔ مگر وہ محبت کے لافانی جذبے میں "عورت" اور "جنس" کی اہمیت سے ناآشنا تھا۔ محبت تو پودے سے بھی کی جاسکتی تھی، اور من موجی کرتا بھی تھا کہ وہ اپنے والد کی طرح پودوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ محبت تو اسے اپنی پالتو مرغی سے بھی تھی کہ جس کا وہ پل پل خیال کرتا تھا۔ محبت کسی بھی شے میں "خوبصورتی" تلاش کرنے اور پھر اُس خوبصرتی کو شدت سے چاھنے کا نام ھے۔ خوبصورتی تو ایک پتھر میں بھی ھے ۔۔۔ خوبصورتی تو سیاہ افریقی چہرے میں بھی ھے۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ خوبصورتی محض "چہرے" میں نہیں، بلکہ وہ کائینات کی پوری تسخیر کا خواب اور جنون ہے. تب تک وہ یہی سمجھتا تھا کہ محبت چہرے کو دیکھتے ھوئے محبوبہ کے گداز جسم کو تصور میں لاتے ھوئے اُسے چھونے کا نام ہے۔ اُسے کہاں ادراک تھا کہ محبت تو ناموجود کے موجود ھونے کا نام ھے، اُسے محسوس کرنے کا نام ھے۔

من موجی اکثر کاغذ پکڑ کر پینسل گھماتا رھتا اور گول گول خطوط سے ان دیکھا گداذ جسم بنتا چلا جاتا ۔۔۔ گداز کولہے، یکلخت مختصر ھوتی کمر۔۔۔۔ اور پھر پینسل گھوم گھوم کر اُوپر اُٹھتی اور دوکبوتر سرخ چونچوں سمیت غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگتے!! من موجی وہ کاغذ جلدی جلدی یا تو چُھپا لیتا اور یا پھر پھاڑ دیتا۔ کیونکہ وہ ڈرتا تھا کہ اگر گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچیں گے۔

اُس کے اندر ہی اندر محبت سوچ کی پینسل سے گھومتی رھتی ۔۔۔ زاویے بنتے رہتے۔۔۔ کبوتر غٹرغوں غٹرغوں کرتے رھتے۔ کبھی گداز اُبھار کسی گول گول گھومتی خلاء میں ڈوب جاتے۔۔۔ اور من موجی کے ھاتھ خالی رہ جاتے۔۔۔ پینسل پھسل کر دور جا گرتی۔۔۔

اور من موجی کا جی چاھتا وہ جلتا سورج ہاتھ میں پکڑ لے!!
-------------
عمار یاسر
-------------
12 مئی 2013
------------
من موجی
------------
چاند اور دھول رات
---------------
14 ویں قسط
---------------
جوہڑ کا کنول
-------------------
آسمان ستاروں سے بھرا رھتا، چاند مسکراتا، اور نیا دن طلوع ھوتا۔۔۔ یہ سب من موجی کو کتنا اداس کر دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھبی متجسس بھی۔۔۔ آخر یہ سب کیوں تھا؟ کیا مقصد تھا اِن سب کی پیچھے؟

من دیکھتا رہ جاتا۔۔۔ ستارا جِھلملا جاتا۔۔۔ روشنی آگ برساتی اور سورج چھنگھاڑتا ۔۔۔ وہی آگ رات کو نیلی اور ٹھندی چاندنی بن جاتی۔۔۔ جو تھا وہ نہیں تھا۔۔۔ جو نہیں تھا وہ، وہ تھا۔۔۔

بدصورتی ۔۔۔ خوبصورتی کی ماں ھے، مرکز ھے۔ گندگی ہی سے بیج پھوٹتا ھے۔۔۔ جنون تڑپتا ھے توآگ بن جاتا ھے اور آگ سسکتی ھے ۔۔۔ زندگی بھاگتی ھے، تکمیل چاھتی ھے۔۔۔ مدغم ھو جانا چاھتی ھے۔۔۔۔ زندگی جنمتی ھے تو وہاں سے، جہاں پاکیزگی قدم بھی نہیں رکھتی۔ مگر زندگی کتنی اُجلی اور شاندار ھوتی ھے۔ آگ سورج ھے۔۔۔۔چاندنی چاند ھے۔۔۔ من موجی سوچتا۔۔۔۔ پینسل کیوں گندگی بنانا چاھتی ہے؟ اور جب گول گول زاویے بنتے ہیں تو گندگی کتنی حسین ھو جاتی ھے۔ انساں مٹی سے بنا۔۔۔، کچی مٹی۔۔۔ اور جب روح پُھنک گئی تو مسکرانے لگا، گیت گانے لگا۔۔۔، شاہکار بنانے لگا۔۔۔

من موجی دیکھتا رھ جاتا جب پرندے گٹروں کا گندا پانی پیتے اور خوب خوب نہاتے اور اُجلے ھو جاتے۔۔۔۔ پاکیزہ ھو جاتے۔۔۔ من سوچتا ۔۔۔ کیا پینسل سے گندی گندی تصویریں بنا نا گناہ ھے۔۔۔ اور یہ گول گول نرم لمسی وجود اتنے دلفریب کیوں‌ ہیں؟ من موجی ابھی "نفس" کو نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ نفس من موجی کے لیے ایک نامعلوم حقیقت تھی۔

وہ اکثر سوچتا یہ سب ستارے، سورج اور یہ خلا کیوں بنائے گئے؟ ستارے آگ سے کیوں بنتے ہیں، وہ کیوں مرتے ہیں۔۔۔۔ کیوں راکھ راکھ ھو جاتے ہیں؟ اور پھر راکھ کہاں جاتی ہے اور کیا ہوتی ھے؟۔۔۔ موت زندگی کا پیش خیمہ کیوں ھوتی ھے؟ زندگی کیوں موت سے ہمکنار ھوتی ھے؟ اگر موت نئی زندگی کو جنماتی ھے، تو موت اتنی المناک کیوں ھے؟ آگ کیوں ھے، گندگی کیوں‌ھے؟ موت کیوں ھے، گناہ کیوں‌ھے ؟ پینسل کیوں ھے، زاویے کیوں‌ ہیں؟ چاندنی کیوں مسکراتی ھے ۔۔۔، کنول جوہڑ میں کیوں کھلتا ھے؟ ۔۔۔۔ لذت کیوں ‌ھے؟

من موجی کو عام سا پھتر مورتی کیوں لگتا؟ ۔۔۔ دیوار پر بنتی لائین شکل کیوں لگتیں ۔۔۔؟ ۔۔۔۔ گندگی میں خوبصورتی کیوں نظر آتی۔۔۔ غربت میں تخلیق کیوں محسوس ھوتی؟

نا جانے من موجی کا دل کیوں کرتا تھا ۔۔۔۔ کہ وہ کسی اجنبی حسین مورت کو اپنے پاس بلاے اور وہ اُس کو اپنے بنجر ہاتھ پر ساری ریشم رکھ کر بیٹھ جانے کو کہے ۔۔۔ ناجانے کیوں من موجی کو گندگی سے اتنا پیار کیوں ھو چلا تھا۔۔۔۔؟
-------------
عمار یاسر
-------------
30 مئی 2013
------------
من موجی
------------

image
Translate   3 years ago

چاند اور دھول
---------------
11 ویں قسط
---------------
"کون ۔۔۔ کون ۔۔۔؟" کی پُکار ۔۔۔ اور شرارت سے بھری ہنسی ۔۔۔!
-------------------
بہار من موجی کی دیوانگی کو ھوا دینے کا موسم تھا۔ ایک ایسا موسم جب ھوایئں خاموشی کے زرد بندھن توڑ کر فضاء کا چہرہ چومتے ھوئے لہرا جاتیں ھیں ۔۔۔ جب پھول اپنا تمام تر حُسن عریانی کی نظمیت کے پہلو میں اُتار دیتٰے ھیں۔ بہار کے موسم میں وہ گھنٹوں تنہائی میں اِدھر اُدھر گھومتا رھتا ۔۔۔ فضاء میں تیرتے بادلوں کو کُھلی آنکھوں سے تاکتا رھتا۔

شام آتی تو ماحول بالکل مدھوش سا لگتا۔ بادل مزید مچلنے لگتے ۔۔۔ آسمان اور نکھر جاتا ۔۔۔ تتلیاں مہکتی آغوش کی مُتلاشی ھو جاتیں۔ اور ۔۔۔ اور ایک دم آسمان کے پوشیدہ کونے سے چاند کسی اَن دیکھے محبوب کی طرح مُسکراتے ھوئے چُپکے سے نمودار ھو جاتا۔ من موجی ایک لمبی سانس لیتا اور اُسے دیکھنے لگتا۔ چاند یکبارگی سے اپنا دائرہ بڑا کرتا رھتا اور اُس کا ہالہ اُسے آغوش میں لئے چلتا رھتا۔

من کو اب انتطار کی کیفیت بھا گئی تھی ۔۔۔ ایک ان دیکھا انتطار ۔۔۔ ایک لامتناھی انتظار ۔۔۔ کچھ پانے کی تمناء، اُسے خود نہیں علم تھا کہ اُسے کس چیز کا انتطار ھے ۔۔۔!

کوئی چہرہ ہنستا ۔۔۔ اور پھر چاند مسکرانے لگتا۔۔۔ کوئی زلف بدلی کی طرح لہراتی ۔۔۔اور پھر کانوں کی چمکتی بالی کی اوٹ لے کر سِمٹ جاتی۔ من موجی کے تصور کا وجود بھیگ جاتا۔ سوال گونجنے لگتے ۔۔۔وہ کون تھا ۔۔۔ جو چاند سے ان دیکھا چہرہ بنتا جا رھا تھا؟ من موجی کے اندر شاعری اُگنا چاھتی تھی۔ اُس کے لب کوئی نام پُکارنا چاھتے تھے۔۔۔ گُنگ زبان پر لفظ جذبوں کی آزان دینا چاھتے تھے۔

اُسے لگتا تھا کہ ایک لمبے راستے کے اُس پار کوئی منزل ھے ۔۔۔ اِردگرد گھنے درخت ۔۔۔ اُن کی اُوٹ میں پورا چاند۔۔۔ خواہشوں کا لامتناہی سلسلہ ۔۔۔ گھوڑوں کی تاپ ۔۔۔ دھیمے دھیمے قہقہے ۔۔۔ چھن چھن ۔۔۔ یکلخت درختوں کی نازک شاخوں کی سرسراہٹ ۔۔۔ "کون ۔۔۔ کون ۔۔۔؟" کی پُکار ۔۔۔ اور شرارت سے بھری ہنسی، جیسے کوئی کہہ رھا ھو ۔۔۔ "بوجھ سکتے ھو تو بوجھ لو ۔۔۔!"۔
-------------
من موجی
-------------
8 فروری
2013
------------
چاند اور دھول
---------------
12ویں قسط
---------------
"چاند پِھر نکلا ۔۔۔ مگر تم نہ آئے
جلا پِھر میرا دل ۔۔۔ کرؤں کیا میں ھائے"
-------------------
اِن تمام کیفیات نے من موجی کی طبعیت اور روح میں رومانوی موسم کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔ خوابیدہ احساسات کی بدلیاں خیالات اور خواہشات کے آسمان پر تیرتیں رھتیں۔ اگرچہ یہ سب کچھ تصوراتی دنیا میں جمالیاتی حسّیات کی ابتدا تھی، مگر ساتھ ساتھ من موجی کی منظقی سوچ سے متصادم بھی۔ وہ بیک وقت کثیرالجہتی محرکات کی زد میں تھا۔

اگر ایک وقت میں وہ چاند اور بادلوں کی چھیڑ چھاڑ کے حسیں مشاہدے میں مدہوش رھتا اور چاند کے حصول کی تمناء میں مبتلا رھتا تو دوسری طرف وہ معاشی اور سماجی اُتار چڑھاؤ کی مدوجزر کی زد میں بھی تھا۔ لامحالہ اِن تضادات نے من موجی کی روح میں بے تابی اور طبعیت میں اضطراب بھی پیدا کر دیا تھا۔ اُلجھن اور سوالات کی بوچھاڑ ہر وقت جاری رھتی۔ طبقاتی تفریق اور معاشرے میں میں جاری دوغلہ پن اُس کو اندر ہی اندر سے توڑتا رھتا۔

مگر بچپن کی معصومیت اُسے ہمیشہ مصروف رکھتی اور وہ نِت نئے تجربات کی دنیا میں دوڑتا چلا جاتا۔ من موجی کے والد صاحب تمام معاملات کو سیاسی اور منطقی انداز میں لیتے تھے۔ وہ ہر بات کو پرکھتے اور پھر بات کرتے۔ اُس کے نانا جی پاکستان بننانے کی داعی مسم لیگ کے پکے کارکن بلکہ رہنماء تھے، وہ مشرقی پنجاب کے ضلع کیتھل کے ضلعی صدر بھی رھ چکے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قریبی ضلع سے تعلق رکھنے والے لیڈر قائدِ ملت لیاقت علی خان کے رویے سے دل برداشتہ ھو چکے تھے، کیونکہ نانا جی سے ایک ملاقات کے دوران لیاقت علی خان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں اِسلامی نظام نام کی کوئی ترکیب آزمائی نہیں جائے گی۔ جبکہ نانا جی مذھبی رائیڑ، فلسفی اور معلم تھے۔

گھر میں سیاسی لحاظ سے دو گروپ تھے، دایئں اور بائیں سوچ کے دو گروپ۔ من موجی کے والد اور من موجی بائیں سیاسی سوچ کے حامل تھے اور نانا جی اور ماموں وغیرہ دائیں سوچ کے۔ گھر میں ہمیشہ سیاسی گرما گرمی رہتی۔ چونکہ گھر میں اخبارات روزانہ آتے تھے، چناچہ خوب بحث ھوتی۔ من موجی کے کزن مذھبی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے، روشن خیالی کو رد کرتے اور ہر اُس سوچ کو اپناتے جو بالآخر سماج میں تنگ نظری کا موجب بنتی۔

من موجی اپنے والد صاحب کی سیاسی بصریت سے متاثر تھا، صرف ا۔س لئے نہیں کہ وہ اُس کے والد تھے، بلکہ اِس لئے بھی کہ اُن کی باتیں اور تجزئے منطقی اور حقیقت سے زیادہ نزدیک معلوم ہوتے تھے.

گھر میں جاری یہ سیاسی کشمکش من موجی کی رومانویت پر پہرا بیٹھا دیتی تھی۔ من موجی جب جب چاند کے حصول کی خواہش کرتا تو حقیقت کا راجہ یک دم آدھمکتا اور حکم جاری کرنے لگتا کہ "جاؤ جاؤ تم ھو کیا؟ ۔۔۔ ایک کمزور سے ناتواں لڑکے ۔۔۔ تمہیں کسی چاند کی خواہش کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ کیا کبھی چاند سے بھی پوچھا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اور یہ کہ تمہیں چاہتا بھی ہے یا نہیں....؟ ۔۔۔ ایک عام سی واجبی سی صورت والے لڑکے کی اوقات ھی کیا ھے۔۔۔"

من موجی اِسی وجہ سے بجھا بجھا سا رھتا تھا۔۔۔ خاموش خاموش سا۔

ساتھ والے گھر کے لانبے لانبے سرو کے درخت چاند کو سمیٹ لیتے ۔۔۔ شام کی ھوا پُراسرار سی ھو جاتی ۔۔۔ نغمگی ہجکولے کھاتی۔۔۔ اور من کا تمسخر اُراتی۔۔۔ اور اُس گھر میں موجود چوکیدار رات گیارہ بجے جب ریڈیو لگاتا تو لتا کا پُرانا گیت چلنے لگتا ۔۔۔،
"چاند پِھر نکلا ۔۔۔ مگر تم نہ آئے
جلا پِھر میرا دل ۔۔۔ کرؤں کیا میں ھائے"

رات اور گہری ھو جاتی ۔۔۔ چاند بادلوں میں چھپ جاتا۔۔۔ اندھیرا چاروں اَور چھا جاتا۔
-------------
من موجی
-------------
10 مارچ
2013
------------

image
Translate   3 years ago

چاند اور دھول
-------------
9 ویں قسط
--------------
دیوانگی کی سزا
-----------------
ایک سال بعد ہی من موجی کے کزن کا داخلہ بھی اُردو میڈیم سکول میں ہو گیا کیونکہ وہ انگریزی/انگلش میڈیم سکول میں تعلیمی لحاظ سے ایڈجسٹ نہ ھو پایا تھا۔ اب من موجی کے لیئے اُس سکول میں سب آسان ھو چُکا تھا۔ مگر ساتھ ھی ایک نئی مصیبت پیدا ھو گئی۔ اُس کا کزن اپنی غصیلی طبعیت اور بے ربط رویوں کی بنا پر دوستوں کے مذاق کا نشانہ بنتا اور پھر وہ جھنجھلا کر اُن سے ہاتھا پائی پر اتر آتا۔ اب صورتِحال یہ بنتی کہ من موجی معاملہ رفع دفع کرانے لگتا۔ وہ دوستوں کو بھی ناراض نہ کرنا چاھتا تھا اور کمال کو بھی خوش رکھنا چاھتا تھا اُس کو لڑائی مار کُٹائی سے بچانا چاھتا تھا۔ مگر کمال تھا کہ بات سمجھتا ھی نہ تھا۔

اِس ساری بد مزا صورتِحال کے باوجود من موجی اور کمال ساتھ ساتھ پھرتے، باتیں کرتےاور مزے اُڑاتے۔

سکول سے زرا دور فوٹرس اسٹیڈیم کے وسیع میدان میں "عوامی میلہ" لگا کرتا تھا، جسے "ھارس اینڈ کیٹل شو" بھی کہا جاتا تھا۔ من موجی کو یاد تھا کہ جب وہ بہت چھوٹا تھا تو اپنے ابا جان کے ساتھ ھارس اینڈ کیٹل شو دیکھنے جاتا تھا۔ لاھور کی سرد صبح دس گیارہ بجے ہلکی ہلکی گُلابی دھوپ ۔۔۔ دور دور ریشم سی تہہ والی مدھم سی دُھند ۔۔۔ سب کچھ کتنا خواب سا لگتا تھا۔ مارچ کا مہنہ لاھور میں اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلواہ افروز ھوتا تھا۔ تب فوجی جوان موٹرسایکلوں پر کرتب دِکھاتے اور بعد میں "ٹی ٹو شو" بھی ھوتا۔

جب من موجی زرا بڑا ھوا تو وہ کمال کے ساتھ چُپکے سے یہ میلہ دیکھنے چلا جاتا۔ وھاں وہ مختلف سٹال دیکھتے اور من تو جانوروں اور مرغیوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ گائے اور بیل کس قدر پلے بڑھے ھوتے تھے۔ سب سے زیادہ وہ مرغیوں کو دیکھ کر حیران ہوا کرتا تھا. بعض قسم کی مرغِیاں عام مرغیوں سے کئی گنا بڑی ھوتی تھیں اور بعض اس قسم کی بھی تھیں جو جینیاتی طور پر پست قد کاٹھ والی ہوتی تھیں.

لوگ جوق در جوق میلے میں آتے۔ خوب خریداری ھوتی۔ من موجی چھوٹے چھوٹے رنگین چوزوں کو دیکھ کر پاگل ھو جاتا۔ اُس کا جی چاھتا کہ وہ سارے چُوزے خرید لے۔ اُن پر لال, پیلا, نیلا اور سبر رنگ چڑھا دیا جاتا تھا. ایک دفعہ جب وہ کمال کے ساتھ میلے میں گیا تو سکول فیس کے پیسوں سے چُوزے خرید لایا۔ وہ بہت خوش تھا، تین عدد رنگ برنگے چوزے۔ جب وہ گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا کہ چوزے خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے، اب سچ بتانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا. خواب پورا کرنے کے لیئے وہ یہ بھول گیا تھا کہ حقیقت کی حثیت بدل نہیں جاتی. من موجی نے سچ سچ بتا دِیا۔ ماں نے واضح الفاظ میں کہہ دِیا کہ اب فیس تو ملنے والی نہیں۔ ما ں نے کہا اب سکول سے نام کٹے گا اور اُسے یہ سزا تو بُھگتی ھی ھو گی۔

من موجی کے لئے وہ دن بہت پریشان کُن تھے۔ سکول سے نام کٹ جانے کا خوف، نام کٹ جانے کا دُکھ. ابھی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ نہیں گزری تھی. وہ چوزوں کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ اُس نے کیا کِیا۔ کبھی چوزوں پر رحم آتا تو کبھی خود پر۔ اپنی چاھت پر تو من موجی شرمندہ نہ تھا اور اُسے حماقت سے تعبیر نہ کرتا تھا مگر اُس کے حصول کے طریقے پر ضرور دُکھ ھوتا تھا۔ وہ سوچتا کاش وہ ایسا نہ کرتا، کاش وہ اپنے والدین سے اِجازت لے لیتا اور اُن سے پیسے مانگ لیتا۔ مگر اب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔ اب سکول سے نام کٹنے والا تھا۔۔۔ سزا کے دِن قریب تھے۔۔۔!
-------------
من موجی
-------------
6 جنوری
2013
------------
چاند اور دھول
---------------
10 ویں قسط
---------------
گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں
-------------------

مگر ایک دن جب من موجی گھر لوٹا تو ماں نے محبت سے دیکھتے ھوئے بتایا اور پھر نصیحت کی کہ فیس تو والد صاحب نے جمع کروا دی ھے اور اب وہ دوبارہ ایسا کچھ نہ کرے, ورنہ پھر سزا بھی ملے گی اور فیس بھی ادا نہ ہو گی. یہ سُن کر اُس کی ساری پریشانی دور ہو گئی. وہ سوچنے لگا
کہ اچھا ہی کیا کہ اُس بے چوزے خرید لیئے کہ فیس تو ادا ہو ہی گئی. اُسے لگا خواب پورا کرنے کے لیئے جتن تو کرنا پڑتے ہی ہیں, دریا کو پار کرنے کے لیئے کنارے سے دوڑتے پانی میں چھلانگ تو لگانا پڑتی ہی ہے. مگر تب وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی کبھی دریا کے کنارے بھی برد ہو جاتے ہیں, بہتے پانی کی خوفناک لہریں بے رحم ہو کر زندگی کی آخری سانسوں کا گلا بھی گھونٹ دیتی ہیں.

تب من کے زہن میں بات بیٹھ گئی کہ خواب دیکھنا ضروری ہے, دریا میں چھلانگ لگانا ضروری ہے,

جب وہ سکول سے گھر آتا تو چوزوں سے کھیلنے لگتا. چوزے چوں چوں کرتے اور وہ اُن کو محبت سے دیکھتا رہتا۔ وہ گھر کے صحن میں اُنہیں کُھلا چھوڑ دیتا اور چیلوں سے بچانے کی غرض سے اُن کے ساتھ ساتھ چلتا رھتا۔ اُن کے کھانے پینے کا خیال رکھتا۔ مگر ایک دن جب وہ سکول سے گھر لوٹا تو دیکھا کہ ایک چوزہ پنجرے میں مرا پڑا تھا۔ اُسے بہت دُکھ ھوا۔ اُس پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ حصول ہی حتمی منزل نہیں ہوتی. حاصل آپ کی دسترس میں آ بھی جائے, تو اُس کا جدا ہونا بھی ہو سکتا ہے. بچھڑنے کا سانحہ بھی ہو سکتا ہے. اُس حقیقت نے اُس کے اندر کے خلا میں ایک عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کر دیا.

اب صرف دو چوزے رھ گئے تھے. اُنہیں دیکھ کر من کو ایسے لگتا جیسے وہ ادھورے ہیں, جیسے کوئی دائمی سی کمی معرضِ وجود میں آگئی ہو. جبکہ درحقیقت یہ احساس تو من موجی کے اپنے اندر تھا, ورنہ زندگی سے بھرپور چوزے تو خوشی خوشی پھدکتے پھرتے تھے. اُنہیں ساتھی کے بچھڑنے کا زرا بھر بھی احساس نہ تھا.

ایک دن دوسرا چوزہ بھی مر گیا۔ من موجی سوچنے لگا کہ یہ موت کیا چیز ھے، جو زندگی کی تمام رعنائیوں کو یک لخت نگل جاتی ھے۔ زندگی جو سر نیچے کر کے اپنے آپ کو موت کی آغوش میں دے دیتی ھے یہ جانتے ھوئے بھی کہ وہ کتنی حسین ھے، کتنی اُمنگ سے بھرپور ھے۔ مگر موت کی دہلیز پر وہ سرنگوں ہو کر اپنی آخری سانس وار دیتی ہے.

من موجی اب رہ جانے والے چوزے کی بہت حفاظت کرتا۔ اور اسے بِلا ضرورت دڑبے سے باھر نہ نکالتا۔ اُس کے دانے اور پانی کا خوب خیال کرتا۔ مگر اندر ہی اندر وہ اُس کی تنہائی کو دیکھ کر دکھی ہو جاتا. وہ سوچتا کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا, تو وہ چوزا تنہاء نہ رھ جاتا.

وقت گزرتا رھا اور چند ماہ میں وہ چوزہ ایک جوان طاقتور مُرغ بن گیا۔ اب من موجی کو یوں لگتا تھا گویا ایک قطرہ بھی سمندر بن سکتا ھے۔ شام کو من موجی اُس مرغ کے ساتھ کھیلتا اور مزے اُڑاتا۔

ہائی سکول میں ڈنڈوں اور سخت ماحول کا خوف بھی اب کم ھو چکا تھا یا من موجی اُس کا عادی ھو چکا تھا۔ جونیئر سکول کے دن کہیں‌دور جا چکے تھے۔ نبیلہ اور خوشبو والی ربر بھی کہیں گم ھو چکی تھی۔ من موجی جانتا تھا ہر من چاھی چیز مل نہیں سکتی، مگر اُس کے اندر ایک کسک رھ گئی تھی، ایک پھانس ۔۔۔ ایک چُبھن۔۔۔۔ ایک سوال اُس کے زہن میں قید ھو کر رہ گیا تھا کہ آخر ستارے آسمان پر ھی کیوں ٹمٹماتے ھیں، زمین پر کیوں نہیں اُتر آتے؟ کبھی کبھی وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ کاش وہ آسمان پر رھتا ھوتا جب جی چاھتا ستاروں کو چھو لیتا۔ دودھیا چاند کو اپنے ہاتھ مین لے لیتا اور اپنے دامن میں چھپا لیتا.

من موجی کے وجود میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں ۔۔۔ جیسے کہیں موسیقیت لے اُٹھا رھی ھو ۔۔۔ جیسے الفاظ سخن آویز لبادہ اوڑہ کر نظم ھو جانا چاھتے ھوں۔ کہیں نہ کہیں من موجی میں نِت نئے دروازے کھُل رھے تھے ۔۔۔ جو کسی نئی انجان دنیا کو در تھے اور من موجی کو وہاں لے جانا چاھتے تھے... ناجانے کہاں....
-------------
من موجی
-------------
23 جنوری
2013
------------

image
Translate   3 years ago

وہ
"4"
-----------------------------------
جب سرِشام اُداس سا ھو کر ۔۔۔
-----------------------------------
گھر میں داخل ھوتے ھی ایک سرد خاموشی اسقبال کرتی۔ سرد دیواریں، سرد چہرے، میکانکی مسکراہٹ۔ سارا دن کی بھوک اور بے کیفیتی ماحول مزید بوجھل کرتا۔

والدہ کے انتقال کے بعد یوں لگتا تھا گویا زندگی بے نام رھ گئی ھو، نہ دلکشی، نہ تازگی۔ گھر میں من موجی اور اُس کے بھائیوں اور ایک بھابھی کے سوا تھا ھی کون۔۔۔ بھا بھی کی تمام توجہ کا مرکزچھوٹا بھا ئی تھا۔ اس کا بناؤ سنگھار، اس کا کھانا بنانا، ۔۔۔ سب بھائی کے لیے تھا۔ من موجی چونکہ بھائیوں میں بڑا تھا اس لئے زیادہ تنہائی کا شکار تھا۔ دو چھوٹے بھائی مشترکہ کام کی وجہ سے کافی باہمی گفت و شنید کرتے نظر آتے تھے۔ جب کہ وہ چاروں بھائی باہمی ھم آہنگیت کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنے اپنے خول میں بند تھے۔

والد کے انتقال بعد، اور بہنوں کی شادیوں کے بعد، گھر ویسے ھی چپ چاپ سا ھو گیا تھا۔

شام کو من موجی جب گھر لوٹتا تو ادھورے پن کا احساس ھوتا۔۔۔ ایک انجانی خواہش جنم لیتی کہ کاش کوئی منتظر ھو، کوئی مسکرا کر خوش آمدید کہے اور خوشبوؤں کا ہالہ اداس ماھول پر تن دے۔ مگر ایسا کہاں تھا۔

پھر وکالت کا خشک پیشہ علیہدہ طبعیت کو خاموش کرتا۔ تیز آواز پر میوزک ھی واھد سہارا تھا جو اندر کے ابال کو دبا سکتا تھا۔ معاشی الجھنیں اپنی جگہ تھیں۔

من موجی کوسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کس کے پاس جائے، کس کے پہلو میں سر رکھ کر پہروں روئے۔۔۔ کس کا دامن تھام کر یقین حاصل کرے۔
-------------------------------------------------
من موجی
27 اگست
2012
....
وہ
"5"
---------------------------------
کھیلن کو مانگے چاند رے ۔۔۔
--------------------------------

زندگی گول پہیے کی طرح تھی، صبح، شام بھر رات اور پھر صبح۔

آفس میں مقدمات کی فائیلیں اور خشک موضوعات، چائے اور سگریٹ۔ دھواں، بے کیفیت، اور خاموشی۔

شام گئے دوست آفس میں آجاتے اور باتیں ھوتیں، سگریٹ پیئے جاتے، قہقہے، ہا ہا ۔۔۔ ہو ہو ۔۔۔۔ مگر ان کے جانے کے بعد وہی خاموشی۔

دن تھے کے گزرتے گزرتے گزرتے نہ تھے۔ شام تھی کہ آتی نہ تھی، آ جاتی تو رات کے آگے سینہ تان لیتی، "میں تجھے آنے نہ دوں گی۔۔۔" ۔۔۔۔ رات سہم جاتی۔۔۔ گڑگڑاتی، پیروں پڑتی۔۔۔ روتی۔۔۔ شام قہقہہ لگاتی اور پھر غائب ھو جاتی۔

رات جھٹ سے عود کرآتی۔

بے بسی چپ چاپ مسکراتی۔۔۔ "ھیلو ۔۔۔۔ اب کیا ھو گا۔۔۔۔؟"۔

سب سو جاتے۔ خاموشی ۔۔۔۔ بے چینی، تنہائی۔۔۔۔

آسیہ کا فون آجاتا۔ بے تکان بولتی جاتی۔۔۔ قہقہہ، باتیں، لمس، سانسیں، اُھو آھا۔۔۔۔ پھر کوئی آرھا ھے۔۔۔ اچھا میں رکھتی ھوں۔

بھر رات کا راج۔۔۔ اندھیرا۔۔۔ ٹک ۔۔۔ ٹک ۔۔۔۔ ٹک۔۔۔۔

اخبار کی وہ خبریں بھی پڑھی جاتیں جو کوئی نہیں پڑھنا چاھتا۔۔۔ پھر ٹی وی۔۔۔

آسیہ اور من موجی دونوں رات کے ساتھی تھے۔ فون اُن دونوں کو مصروف رکھتا تھا۔ مگر پھر کیا کمی تھی جو ختم نہ ھو تی تھی، وہ کیا سیلاب تھا جو رُکتا ھی نہ تھا، وہ کیا بارش تھی جو تھمتی ھی نہ تھی۔ ٹک ٹک ۔۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔۔

کیا من موجی سراب کے پیچھے بھاگ رھا تھا۔۔۔ کیا آسیہ اور "گُل نور" صرف محرومیاں تھیں، اور اگر تھیں تو کیا یہ نا آسودہ جنسی محرومیاں تھٰیں، دماغ سُن تھا۔۔۔ سمجھ چپ تھی۔۔ کچھ تھا جو نہیں تھا، کچھ تھا جو کم تھا۔۔۔ من "چاھت" کا متلاشی تھا۔۔۔ نہ "وہ" محبوبہ تھی اور نہ آسیہ۔۔۔ کوئی جنون تھا جو عشق کرنا چاھتا تھا۔۔۔ عشق میں ڈوب جانا چاھتا تھا۔۔۔ کوئی ایسی ھستی۔۔۔ جو من موجی کی خواھشوں کی طرح ھو۔۔۔ دلربائی ھو، دودھ کی طرح ملائی ھو، جو بولے تو لفظ ناچیں، جو چلے تو بہاریں جھوم جھوم جائیں۔۔۔

جو من موجی کے سامنے آکھڑی ھو۔۔۔ جو سب کے سامنے من موجی سے اپنی وارفتگی کا اعلان کرے۔ کہہ دے،
"من۔۔۔۔ تم میرے ھو۔۔۔ آ جاؤ میری باھوں میں، بساا لو اپنے دل میں۔۔۔"

جو اپنے سارے پوشیدہ بندھن خود ھی کھول دے۔۔۔

مگر کوئی ایسی ھستی تو کہیں تھی ھی نہیں۔۔۔۔

دل تو بے بس تھا۔۔ چپ تھا۔۔۔ منتظر تھا۔۔۔ جو کھیلنے کو چاند مانگتاتھا۔۔۔۔ آہ۔۔۔
--------------------------------------------------
من موجی
11 ستمبر
2012
.....
وہ
------------
"6"
---------------------------
چاند تو کوئی اور ھے۔۔۔
---------------------------
کبھی من موجی سوچتا کہ کیا چاند مانگنے سے مل جاتا ھے، کبھی سوچتا کیا چاند چھینا بھی جا سکتا ھے؟ پھر سوچتا کہ کیا چاند کبھی ملتا ھی نہیں۔۔۔۔ مگر بھر یہ خیال سوال بن کر آجاتا کہ وہ کون ھوتے ھیں جن کو چاند چاھنے سے، مانگے سے مل جاتا ھے۔

چاند آسمان پر کہیں چمکتا ھے، جو وجود کی دسترس سے دور ھوتا ھے، تو لوگ کیسے چاند حاصل کر لیتے ھیں؟ من موجی دل کی افسردگی کو کبھی سمجھ نہ پاتا تھا۔ اُسے لگتا تھا کہ دل کی افسردگی دور کرنا آسان بات نہیں۔ یہی افسردگی جب گہری ھو جاتی ھے تو روح کی افسردگی میں تبدیل ھو جاتی ھے۔ وہ یہ بھی سوچتا کہ شاید "چاند" مل جانے سے ھی افسردگی دور ھو جاتی ھو۔۔۔۔!

مگر جب وہ گل اور آسیہ کو سوچتا تو اسے صاف محسوس ھوتا کہ چاند تو کوئی اور ھے۔۔۔ کوئی اور دلربا، کوئی اور ماہ نور۔۔۔

افسردگی بڑھتی ھی چلی جا رھی تھی۔

مالی مسائل بھی بڑھتے ھی جا رھے تھے۔ قانون کا پیشہ آسان نہیں ھوتا، خاص طور پر اگر آپ رئیس خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ ملک کی عدالتیں انسانی منفی ظالممانہ رویوں کو دور کر کے منصف کی جبلتی طریق پر ایستادہ ھو ھی نہیں سکیں۔ ایسی صورت میں من موجی جیسے وکیل پیشہ ورانہ مشکلات کا مزید شکار ھو جاتے ھیں۔ کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ من موجی فطری طور پر وکالت کے پیشے کے لیے موزوں ھی نیہں، بلکہ وہ اور لوگ ھوتے ھیں جو وکالت جیسے پیشے کے لیے موزوں ھوتے ھیں۔ چالاکی، دوغلا پن، چرب زبانی، جھوٹ اور پیسے بٹورنے کی حرص ایک عمومی وکیل کی قابلیت کے علاوہ اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ھوتی ھیں، یہ سب صلاحیتٰیں من موجی میں تو دور دور تک نیہں تھیں۔ وہ تو فطری طور پر ادبی، منطقی تھا اور سادگی کو پسند کرتا تھا۔ اُس کو سب سے مشکل کام فیس منگنا لگتا تھا، جبکہ اس پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو کیس لڑنا مشکل اور طے شدہ فیس سے زیادہ پیسے مانگنا سب سے آسان کام لگتا ھے۔ اس کے نہ تو بڑے بڑے سرکاری افسروں سے تعلقات تھے اور نہ ھی ججوں سے ۔۔۔ اُس کی تو اپنی دنیا تھی ۔۔۔ اپنی منطق، اپنی سوچ۔۔۔

شاید من موجی تبھی سوچنے لگا تھا کہ چاند اُن ھی لوگوں کو ملتا ھے جو من موجی جیسے افسردہ اور بےواقوف نہیں ھوتے۔۔۔۔۔
------------------
من موجی
------------------
13 اکتوبر
2012
---------------

image
Translate   3 years ago

من موجی
پہلی قسط
من موجی دل کا سفر ھے جو دکھ اور سکھ کے ساتھ ساتھ چلتا ھے۔ من موجی روح کا سُراغ ہے جو محبت کی تلاش میں محبت کے معنی تلاش کرنے بیٹھ جاتا ھے. من موجی ایک بھٹکا ھوا مسافر ھے, جو ریلوے سٹیشن بیٹھا رھا, اور اس کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب اس کی ریل چھوٹ گئی. من موجی محبت کی دہلیز پر بیٹھا جوگی ھے, جو بھیک میں صرف محبت کے دو سچے بول مانگتا ھے. وہ ایک ایسا قسمت کا مارا ھے جو چاھا گیا اور پھر رد کردیا گیا. اس کے لئیے دروازہ کھولا گیا, اور پھر منہ پھیر کر دروازہ بند کردیا گیا. من موجی ایک خود کلامی ھے.
........

من موجی
----------------------------------
وہ
”1“
-------------------------------------
شام کو ٹیوشن اور پھر گھر
------------------------------------

وہ بیتاب بھی تھی اور پریشان بھی۔۔۔ ایک طویل توقف کے بعد اس نے خاموشی توڑی،"من! ۔۔۔ میں نے ایک فیصلہ کر لیا ھے ۔۔۔" جیسے اس نے الٹیمیٹم دیا ھو ۔۔۔

من موجی جانتا تھا وہ طویل سفر سے تھک چکی تھی۔ سارا دن کی جاب ۔۔۔ شام کو ٹیوشن اور پھر گھر۔۔۔ انتطار کرتا بچہ۔ زندگی کے اس سفر میں کوی بھی تو نہیں تھا ساتھ اس کے۔۔۔ شوھر جو ایک بازاری عورت سے شادی کر چکا تھا اور دوسرے شہر جا بسا تھا، بس کبھی کھباربچے کے بہانے حاضری لگانے چلا آتا تھا۔ گھر والے جو اس کی شادی شدہ زندگی کی ناکامی پر پریشان بھی تھے اور اس کی تنخواہ کے منتظر بھی۔

پھر ۔۔۔ اس معاشرے کے مرد تو تھے ہی بازاری کہ جانتے تھے وہ کھلے زھن کی عورت ھے۔ سب اس تاک میں رھتے تھے کہ کب وہ ان کے ساتھ وقت بیتاے۔۔۔ اور وہ اپنی ہوس کی آگ بجھائیں۔

اور ایک دن وہ من موجی کے دوست کی دوست ھو گئی ۔۔۔ اس کی زندگی رنگین ھو گئی۔ کھبی کبھار وہ دونوں من موجی کے آفس چلے آتے۔ وہ من کی شاعری سنتی اور اپنی سناتی۔

من موجی
11 اگست
2012
.....
وہ
"2"
------------------
اس کی نگاہ میں
------------------

من موجی کا دوست اس لڑکی کے ساتھ خاصا بے تکلف تھا۔ لیکن کہیں سے بھی یہ احساس نہ ھوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی تعلق دوستی کے علاوہ بھی ھے۔

وہ دونوں ایک این جی او میں کام کرتے تھے، جو تعلیمی فلاھی مقاصد رکھتی تھی۔ اکثر وہ من کے آفس کال ملاتی اور بے تکان باتیں کرتی۔ من موجی کے تنہاء لمہے خشگوار ھو جاتے۔ مگر چند لمہوں بعد بے کیفیت احساس من موجی کو آن جکڑتا جب وہ کہتی کہ فرخ مجھ سے بات کرنا چاھتا ھے۔ دراصل وہ رسیپشنسٹ بھی تھی، سٹینو بھی اور سیکرٹری بھی۔ من موجی سے ھیلو ھائےتو دراصل صرف اخلاق تھا یا ایک شاعرانہ تعلق۔ یہ چیز من موجی کو کمآئیگی میں مبتلا کرتی تھی کہ وہ من موجی سے صرف اس لیے بات کرتی ھے کہ وہ فرخ کی کال اُس سے ملاتی ھے۔

کہیں نہ کہیں من موجی کے اندر ایک خواہش جنم لے رھی تھی کہ کبھی وہ من موجی سے صرف اُس کے حوالے سے بات کرے، نہ اس میں فرخ ھو نہ شاعری۔ کبھی وہ اُس سے ملنے اُس کے آفس آئے، اکیلے تنہاء۔ من موجی کے دل میں کوئی بدی نہ تھی بلکہ ایک مردانہ جلاپہ تھا کہ آخر من موجی کی تنہاء شناخت بھی کوئی حثیت رکھتی ھے، شاعرانہ شخصیتی عنصر تو من موجی کے اندر ھے، جو اس میں بھی ھے اور جو فرخ میں ھے ھی نہیں۔

یہ مردانہ جلاپہ ایک انتقام سا بنتا جا رھا تھا، جو اسے تسخیر کرنا چاھتا تھا۔ اس میں فرخ کہیں بھی نہیں تھا کیونکہ وہ تو من موجی کا دوست تھا۔ بس وہ چاھتا تھا کہ جو حثیت فرخ کی اس کی نگاہ میں ھے وہ من موجی کی ھو جائے، چاھے فرخ کے ساتھ وہ گھومے پھرے، مگر تڑپے من موجی کے لیئے، روئے وہ اُس کے لیئے۔ فرخ سے صرف دوستی ھو، ایک اخلاقی تعلق ھو۔

---- جاری ھے ----

من موجی
14 اگست
2012
.....
وہ
"3"
---------------------------
سرد شام شدت سے ۔۔۔
---------------------------

مگر ایسا نہ تھا۔ وہ فرخ کے ساتھ ہی تھی، اس کی جاب کا بڑا دورانیہ اکھٹے ہی گزرتا تھا۔ جب وہ دونوں اکھٹے من موجی کے آفس آتے تو یوں لگتا جیسے من اُن کی خدمت پر معمور ھو اور اُس کے اخلاقی فرائض منصبی میں ان دونوں کی خدمت میں پیش پیش ھونا لازمی ھو۔

دراصل من موجی کا آفس ان دونوں کو آزدانہ ما حول محیاء کرتا تھا جہاں وہ قدرے قریب اور دفتری اطوار سے مُبرا ھو کر بات چیت کر سکتے تھے۔

من موجی مقدمات کی فائلوں کے سا تھ ساتھ ان دونوں سے بات چیت بھی کرتا رھتا تھا۔ شام گئے جب وہ تینوں فارغ ھوتے تو گل نور بس پکڑتی، من موجی اور فرخ موٹر سائکل پرسیاسی کام پر نکل جاتے۔ اور یا پھر اگر ان دونوں نے اکھٹے جانا ھوتا تو وہ من موجی سے اجازت لیتے۔

لاھور عجیب شہر ھے۔ سردیوں میں شام ساڑھے چار بجے ھی سرد ماحول اور دھند کی چادر اوڑھ لیتی ھے۔ لوگ سرد موسم میں موج مستی کرتے، سگرٹوں کے دھویں سے کیھلتے لاھور کی خاموش سرد سڑکوں پر رواں دواں ھو جاتے ھیں۔

شام کو جب وہ دونوں رخصت ھوتے تو سرد شام شدت سے اپنا آپ منوانے کے لیے عود آتی۔ من موجی کو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کی گرم قربت میں اس سردی کا لطف لے رھے ھیں۔ جبکہ من موجی کو موٹر سایئکل پر دور آفتادہ نئی کالونی تک کا خون جما دینے والا سفر کرنا پڑتا تھا۔ لاھور ہائیکورٹ سے کالونی تک کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہیں۔ یک لخت سرد اور رات میں ڈھل جانے والی سرد شام لاھور کی ھیوی ٹریفک میں اور بھی سفر کو بوجھل کر دیتی تھی۔

گھر میں تھا ھی کیا۔۔۔؟ کوئی تھا جو انتظار کرتا ۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا۔ سوائے سرد دیواروں کے اور میکانکی رشتوں کے۔
------------------------
جاری ھے۔
-------------------------
من موجی
20 اگست
2012
....
وہ
"4"
-----------------------------------
جب سرِشام اُداس سا ھو کر ۔۔۔
-----------------------------------
گھر میں داخل ھوتے ھی ایک سرد خاموشی اسقبال کرتی۔ سرد دیواریں، سرد چہرے، میکانکی مسکراہٹ۔ سارا دن کی بھوک اور بے کیفیتی ماحول مزید بوجھل کرتا۔

والدہ کے انتقال کے بعد یوں لگتا تھا گویا زندگی بے نام رھ گئی ھو، نہ دلکشی، نہ تازگی۔ گھر میں من موجی اور اُس کے بھائیوں اور ایک بھابھی کے سوا تھا ھی کون۔۔۔ بھا بھی کی تمام توجہ کا مرکزچھوٹا بھا ئی تھا۔ اس کا بناؤ سنگھار، اس کا کھانا بنانا، ۔۔۔ سب بھائی کے لیے تھا۔ من موجی چونکہ بھائیوں میں بڑا تھا اس لئے زیادہ تنہائی کا شکار تھا۔ دو چھوٹے بھائی مشترکہ کام کی وجہ سے کافی باہمی گفت و شنید کرتے نظر آتے تھے۔ جب کہ وہ چاروں بھائی باہمی ھم آہنگیت کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنے اپنے خول میں بند تھے۔

والد کے انتقال بعد، اور بہنوں کی شادیوں کے بعد، گھر ویسے ھی چپ چاپ سا ھو گیا تھا۔

شام کو من موجی جب گھر لوٹتا تو ادھورے پن کا احساس ھوتا۔۔۔ ایک انجانی خواہش جنم لیتی کہ کاش کوئی منتظر ھو، کوئی مسکرا کر خوش آمدید کہے اور خوشبوؤں کا ہالہ اداس ماھول پر تن دے۔ مگر ایسا کہاں تھا۔

پھر وکالت کا خشک پیشہ علیہدہ طبعیت کو خاموش کرتا۔ تیز آواز پر میوزک ھی واھد سہارا تھا جو اندر کے ابال کو دبا سکتا تھا۔ معاشی الجھنیں اپنی جگہ تھیں۔

من موجی کوسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کس کے پاس جائے، کس کے پہلو میں سر رکھ کر پہروں روئے۔۔۔ کس کا دامن تھام کر یقین حاصل کرے۔
-------------------------------------------------
من موجی
27 اگست
2012

image