urduliterature Cover Image
urduliterature Profile Picture
13 Members
Translate   1 month ago

غزل

پال کر پوس کر رکھا ہوا
دل کسے چاہیئے ٹوٹا ہوا

جب بھی گزرا اجاڑ رستے سے
چوک میں کوئی تھا بیٹھا ہوا

بارہا یوں ہوا ہے اکثر کہ
اُس نے سوچا میرا سوچا ہوا

کون لے جائے گا سجانے کو
اِک میرا دل جو ہے ٹوٹا ہوا

یاد بھی اِک کتاب ماضی کی
وعدہ مجھ سے کیا بھولا ہوا

وہ کوئی خواب تھا, حقیقت تھا
وہ کوئی خواب تھا دیکھا ہوا

بالا منزل عمارتوں کے تلے
جا رہا کون تھا الجھا ہوا

وہ میرا تھا یوں آسمانوں سے
اِس زمیں پہ نہیں میرا ہوا

ہات میں تھام کر وہ اِک بادل
تھا صبا نے کہا برسا ہوا

اُس کے نینا بھرے کٹورے سے
کتنا بے بس تھا وہ اِک ترسا ہوا

رات کی یاد میں معطر سا
خوش بدن تھا کوئی مہکا ہوا

عمّاریاسر
21 مارچ 2024

image
Translate   2 months ago

غزل

بدل گئے ہیں راستے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے
ہوں جفا کے سلسلے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

دوستوں کے درمیاں ہو پیار بھی تو وقت پر
زندگی کے واسطے پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

ہو رقیب کا ستم جو ایک دل کو توڑ دے
ہوں جو ایسے معاملے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

مان کر دلیل کو, ٹوٹ جائے کوئی دل
چین پھر نہ مل سکے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

سیدھی سیدھی بات کا, کیا راستہ, کیا واسطہ
سینے میں ہوں دائرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم مگر یونہی نہیں آج آئے ہو یہاں کہ اب
سب عیاں ہے آنکھ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم میرے قریب ہو, اس قدر کہ اس قدر
ہائے شوخ شوخ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

پیار میں قرین ہے زندگی کے چین کو
نین ہیں بھرے بھرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

کل ہی تو گئے ہو تم اب کہاں تم آئو گے
پھر نصیب کِھل پڑے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

عمّار یاسر
25 فروری 2024

image
Translate   2 months ago

غزل

وہ اپنی پلکیں اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں
وہ شام ہنس کے سجا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اِس لیئے بھی تو منہ کو چھپائے پھرتے ہیں
وہ بھر کے جام پلا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اپنے آپ میں بیٹھے ہیں بت کی صورت کیوں؟
وہ اپنی پلکیں گِرا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا ہے اُس کے بھی دل کو ہاں چوٹ گہری ہے
وہ دل سے اپنی سنا دے تو کوئی جائے کہاں

اٹھا ہے غدر قیامت کا اے رفیقِ سفر
دیوار ہم پہ لگا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم در بدر سے جو پھرتے ہے آہ و زاری سے
وہ پردہ اپنا اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں

تلاشِ خوباں کی عجلت میں دل سے ہار گئے
کوئی تو اُس کا پتا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا یے بس میں خدائی کے سارے رستے ہیں
ہمیں بھی راہ سے مِلا دے تو کوئی جائے کہاں

یہ شوقِ دیدِ تمنا ہے اب بھی قائم کیوں؟
وہ اپنا چہرہ دِکھا دے تو کوئی جائے کہاں

عمّاریاسر
11 فروری 2024

image
Translate   2 months ago

غزل

کٹ کے ہات میں کھل جاتا ہے, پھول ہے یا اِک زخم کوئی
آپ ہی آپ سے ہو جاتا ہے خواب ہے یا اِک وہم کوئی

میں تو رات کو لوٹا تھا اور, وہ تو صبح کا تارا تھا
عام سی صورت, عام سی باتیں, کون کہاں تھا اہم کوئی

بارش تو بس دن کی ہی تھی, رات کو موسم بے کل تھا
کھول کے دروازہ اِک صورت, کچھ تو کر دے رحم کوئی

کھڑکی کے وہ پاٹ کھلے تھے, زلف تھی بکھری رات کوئی
چاہت, الفت, شدت, وحشت, پیار میں کیا زی فہم کوئی

چھو کر دیکھو, چاہ کر دیکھو, روح پائو گے, آئو گے
لطف کی صحبت, آگ کی لذت, خاک یہاں ہے لحم کوئی

سوچ پریشان, بات نمایاں, لفظ سنہرے, ہونٹ گلاب
عریاں عریاں شوق نئے اور, سُر کی لے ہے شرم کوئی

رات مسافر, ریل, مسافت, دور کہیں پہ منزل تھی
الجھی الجھی لفظ کی بُنت, بنتی کیا پھر نظم کوئی

عمّاریاسر
10 فروری 2024

image
Translate   3 months ago

غزل

یہ رات تو جیسے کٹتے کٹتے گزرے گی
اِک کِتھا کہانی لکھتے لکھتے گزرے گی

کیا آج کا دن بھی بھیگے لب کا نہ ہو گا
کیا آج کی شام بھی چپکے چپکے گزرے گی

ہیں شہر میں چرچے اپنی بادہ خوری کے
اور آج کی رات بھی پیتے پیتے گزرے گی

پھر یادوں کی گائِک نے غزل سی چھڑی ہے
اب رات ستارے چُنتے چُنتے گزرے گی

کیا اُس نے 'نہیں' سے آگے کچھ اور کہنا تھا
اِس بات پہ شب یہ ٹکڑے ٹکڑے گزرے گی

یوں دور گئے وقتوں کے رستے قائم ہیں
ہر بات بظاہر بُنتے بُنتے گزرے گی

صبح ہو گی تو 'دیوانہ' لوگ کہیں گے پھر
سو خود پہ یہ شب ہنستے ہنستے گزرے گی

کچھ جگنو تارے ساتھ نبھانے آئے ہیں
یہ راہ سنگت میں رُکتے رُکتے گزرے گی

ہم سانس کو گِروی کر کے تجھ تک پہنچے تھے
یہ جان مگر اب بِکتے بِکتے گزرے گی

عمّاریاسر
28 جنوری 2024

image