Translate   8 months ago

ٹائم فریم
.....
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میری اُس نے آخری دفعہ کب بات ہوئی تھی, شاید دو سال پہلے, یا ڈھائی سال پہلے .... مگر بات چیت منقطع میں نے خود ہی کی تھی. بات کوئی خاص نہ تھی. بس ایک دن اُس نے بتایا کہ اُس کی شادی اگلے ماہ ہے. میں نے محسوس کیا اب مجھے اُس سے بات نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ وہ خود ہی کہا کرتی تھی کہ صاب جی جب میری شادی ہو جانی ہے نا تو میں بات نہیں کروں گی.

وہ مجھے لاڈ سے صاب جی کہا کرتی تھی. اُس کا نام کسی شام کی طرح اُداس سا تھا جس میں خوشی یوں ملی ہوئی محسوس ہوتی تھی جیسے اکتوبر کے آخر میں ہلکی بارش فضا میں خنکی بڑھا دیتی ہے. اُس کا نام جو بھی تھا میں اُسے پیار سے 'میم' پکارا کرتا تھا.

جتنا اُس کا نام میم تھا اتنی ہی وہ اُردو دان تھی, ایسے ایسے لفظ استعمال کرتی تھی کہ دل چاہتا تھا کہ کاش اُسے لغت کہہ کر پکاروں.

ابھی چار دن پہلے اُس کا فون آیا. مجھے بہت حیرت ہوئی کہ دو سال سے زیادہ کے عرصہ کے بعد اُس نے مجھے کیسے یاد کر لیا, جب میں نے پوچھا تو کہنے لگی,

'میں جانتی تھی آپ یہی پوچھیں گے...'

میں نے بھی کہا کہ میں بھی جانتا تھا کہ تم یہی کہو گی. پھر میں کہا کہ میں تو سمجھا تھا کہ تم مجھے بھول گئی ہو گی. وہ سنجیدگی سے کہنے لگی,
'آپ کو بھولی ہی کب تھی....'

اور میرے نے خود کی خود ہی چٹکی سی بھر لی, اور دھڑکن نے جیسے کہا کہ واہ کیا خوش قسمتی ہے کہ یوں لگتا تھا کہ میم اپنی شادی شدہ زندگی کے جھمیلوں اور خوشیوں میں مجھے بُھلا چکی ہو گی, مگر اُس نے مجھے بُھلایا ہی نہیں...
....
یونہی چند دن بعد ہی ریحانہ ایک سماجی تقریب میں ملی. میں ایک سیمنار میں شرکت کے لیئے گیا ہوا تھا. شاید اُس نے مجھے دور سے دیکھ لیا. اچانک وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی. اُس کی آنکھوں میں حیرانی اور احتجاج سا تھا, جیسے کہہ رہی ہو کہ دیکھا میں جانتی تھی تم دامن چھڑا کر چل دو گے. اُس کے فقرے موسم کا حال پوچھ رہے تھے, مگر وہ نیم غصے میں میرا غائب ہو جانا پوچھ رہی تھی.

میں واقعی کچھ اُس کے ساتھ دوستی میں احتیاط پسند ہو گیا تھا. مجھے لگتا تھا جیسے ریحانہ کو میری طلب تھی, جیسے زندگی کے لمبے سفر پہ چلتے چلتے اُسے ایک ہمسفر کی ضرورت تھی. مگر سچ ہے اُس کے کئی دفعہ گھر پر بلانے پر میں نے بظاہر غیر دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا. میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی جادو گر تھا, میں یہ جانتا تھا کہ وہ ایک اکیلی عورت تھی, اور اُس کی عمر کی رفتار بھاگ رہی تھی. ڈھلتی عمر کی مثال چلتی ریل سے نظر آنے والے منظر کا سی ہے, جیسے منظر پیچھے کو دوڑتا ہے اور ریل آگے کو بھاگتی ہے...

اُس نے بالکل سامنے آکر کہا,
'کہاں تھے تم حارث ....؟'

سچ یے میں نے بات بنائی,
'کہاں جانا تھا یہیں تھا بس کچھ دنوں کے لیئے ملتان گیا تھا....'

وہ بہت دلچسپی سے کہنے لگی,
'میں تو پریشان ہو گئی تھی. وہ تو کل شبیر نے بتایا کہ اس تقریبِ رونمائی میں تم بھی آئو گے, تو میں فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تم سے ملنے ضرور آئوں گی...'

میں لاچار سا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا.

'تم ٹھیک تو ہو نا حارث....' اُس نے کسی آس سے پوچھا. میں نے سوئی کے نکے میں دھاگہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی,
'ہاں, ہاں بالکل ٹھیک ہوں.... اور تم کیسی ہو؟'

'میں بھی ٹھیک ہوں ... بس زرا آج کل طبعیت بوجھل رہتی ہے.... مگر سچ ہے تمہاری فکر تھی مجھے ... '

میں شرمندہ سا ہو گیا.
....
اور آج تو حد ہو گئی جب رقصم کا فون آگیا. بالکل میرے وہم و گمان سے ہزاروں نوری سال کی مدتوں کے فاصلے سے فون. جب موبائل فون پر اُس کا سیوّڈ فون نام بن کر چمکا, تو میں حیرت سے لبریز ہو گیا. رقصم ایک صوفیانہ روح کی مالک تھی. اُس کی آواز میں پنجابی جھلک نمایاں تھی, مگر الفاظ اتنے گہرے تھے کہ اُس کو لگاتار سننے کا جی چاہتا تھا.

'ھیلو ... حارث صاحب میں رقصم بول رہی ہوں ... شاید آپ نے پہچان لیا ہو....' اُس کی آواز نے حیرت کے آتش دانوں میں چنکاریاں سی بھڑکا دیں.

میں نے خوشی کی حیرت پر سنجیدگی چڑھاتے ہوئے کہا,
'جی بالکل پہچان لیا آپ کو۔ آپ کا نمبر سیوّ ہے میرے پاس....'

'اور آپ کیسے ہیں؟'

'میں ٹھیک ہوں, آپ کیسی ہو....؟'

'میں بھی بالکل ٹھیک ہوں.... اصل میں ایک عرصہ ہو گیا تھا آپ سے بات کیئے ... شاید تین چار سال تو ہو گئے ہوں گے... بس یونہی آپ کا خیال آگیا ....'

'بہت بہت شکریہ.... کوئی کسی کو یاد کرے, یاد رکھے, یہ بڑی خوش کی بات ہوتی ہے اُس کے لیئے جِسے یاد رکھا جاتا ہے'

'اچھا آپ لاہور میں ہیں؟ آپ کہہ رہے تھے نا کہ آپ لاہور آ جائیں گے...'

میں نے خاموشی سے کہا,
'جی ... مگر شفٹ ہونے کا مطلب نہیں تھا تاہم میں کئی دفعہ لاہور آیا ہوں. ابھی پچھلے ماہ تو لاہور آیا تھا, اب شاید دسمبر میں آئوں...'

'جی اچھا....'

'اچھا اگر آیا تو آپ سے ملاقات ضرور کروں گا... '

'جی جی ... اگر ممکن ہوا تو ضرور.....' جیسے اُس نے اپنی کہی باتوں کو پلٹانا چاہا, جیسے اپنے غیر متوقع فون کو یوں ہی سا کہنا چاہا تاکہ جس دل کی ہُوک نے اُسے مجبور کیا تھا کہ مجھے تلاش کرے, جیسے اُس کے لیئے میں گم شدہ ہو گیا تھا ...

'او کے....'
.....

شام کو جب میں یونہی بستر پر لیٹا تو سوچنے لگا انسان کے اندر بھی ایک کلاک لگا ہوا ہے, جو کسی بھی معاملے کی آمد اور برخاست کی ٹِک ٹِک متعین کر رکھتا ہے. انسان کے دکھ سکھ اُس کے اپنے ہاتھ سے بھی سرزد ہوتے ہیں مگر انسان کے اندر اِن دکھوں اور سکھوں کو اوجھل کرنے, اور یا پھر کسی کو یاد کرنے, پھر شدت سے یاد کرنے, اور پھر اُس کو تلاش کرنے, پھر پیاس سے تلاش کرنے, اور تلاش کر کے رابطہ کرنے کا بھی ایک ٹائم سیٹ متعین ہوتا ہے. یہ ٹائم سیٹ انسانی جبلت سے جڑا ہوتا ہے. دورانیہ آگے پیچھے ہو سکتا ہے, مگر ایسا ہوتا ہے...

کبھی کبھی ہم جِسے یاد کرتے, اُسے دیکھنا چاہتے ہیں, وہ بھی ہمیں عین اِسی طرح یاد کر رہا ہوتا ہے, ملنا چاہتا ہے.... اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ قدرت کچھ وقت سے لحظے چُرا کر متعین ٹائم سیٹ کا دورانیہ آگے پیچھے کر دیتی ہے اور وہ شخص بظاہر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے.

کئی دفعہ تو یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی کو سوچا اور وہ سامنے آتا ہوا دکھائی دیا.... شاید اُس نے مجھے یاد نہیں کیا, یا پھر شدت سے یاد نہیں کیا, پھر مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی, پھر اُس کوشش کو شدت سے کرنے کا جتن نہیں کیا, اور تلاش کر کے رابطہ کرنے کا ٹائم فریم خود بخود ہی یوں ٹوٹ جاتا ہے کہ وقت کے بلیک ہول نے اُمید کی ساری کرنیں, روشنیاں تک اندر کھینچ کر فنا کر دیں ....

تبھی سب کا کہا پلٹ گیا, جو کہتے تھے,
"حارث, دیکھ لینا وہ خود رابطہ کرے گی, وہ یقینا٘ مجبور ہوگی, لاچار ہوگی, اُس کی کئی مجبوریاں ہوں گی, وہ بھی روتی ہو گی, تڑپتی ہوگی.. " میں جانتا ہوں وہ یہ سب اُسی ٹائم فریم کو مدِ نظر رکھ کر نہ بھی کہتے ہوں گے, جو ہر انسان میں ہوتا ہے, مگر وہ انسانی فطرت سے لبریز ہو کر ہی یہ سب کہتے تھے. یہ کیسے ہو سکتا ہے رات ہو اور سویرا نہ ہو, صبح ہو تو اُمید کے پھول نہ کھیلیں اور پھول کھلیں تو وادی میں پھولوں سے لدی پہاڑیوں سے خوشبو سے رچی بسی صبا نیچے نہ اترے...

مگر پھر کہیں ایک موہوم سی خاموشی سب کچھ بجھا دیتی, سارے امید کے دیے بجھ جاتے, اندھیرا چھا جاتا, جسیے کوئی بلیک ہول معرضِ وجود میں آگیا ہو, سب روشنیوں کو نگلنے کے لیئے, یہاں تک کہ سارے ٹائم فریم کو چھپاک سے نہ ہونا کرنے کے لیئے.... یعنی ہونے کو نہ ہونا کرنے کے لیئے... یا خدا کوئی یوں بھی ہو سکتا ہے, کوئی یوں بھی کر سکتا ہے ....

ابھی پچھلے دنوں شہزاد نے میری ایک بات پر شوخی سے کہا تھا,
'حارث بھائی آپ کوئی بھولنے والی چیز تھوڑی ہو...' میں سر جھکا کھڑا اُس کا منہ دیکھتا رھ گیا تھا.
....

بچھڑنے کے بعد وہ پھر کبھی مجھے دکھائی نہیں دی, نہ ہی پھر کبھی ملی .... اُس نے وقت کے بلیک ہول سے رابطہ کر لیا۔ اور اُس کے اندر کی جبلت ہار گئی, اور وقت سے جڑا زمانہ کام کر گیا. زمانہ کچھ نہیں سوائے وقت کے, اگر زمانہ صرف لوگ ہوتے, تو انسان اُن سے لڑ لیتا, اگر زمانہ صرف سماج ہوتا تو انسان جہالت, تنگ نظری, خود غرضی کو فنا کر دیتا ... زمانہ تو وقت ہے, جو ایک بلیک ہول ہے, جو فطرتا٘ سانپ ہے کہ وہ روشنی تک کو تو نگل کر فنا کرتا ہی ہے, ساتھ اپنے بچولوں یعنی لحظوں کو بھی نگل کر صفر کر دیتا ہے... موت کچھ نہیں اور موت صرف وقت کا صفر ہو جانا نہیں.... موت کے بعد اِس جیتی جاگتی دنیا کے تماشے صرف زندگی سے جڑے رہتے ہیں.... 'نہ ہونے' سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے...
....
مگر ناجانے کیوں .... اِن تین عورتوں کے فریم ورکس نے ایک آواز دی ہے, آواز شور سے دب تو سکتی ہے, فنا نہیں ہو سکتی, اور جہاں خلا ہے اور بلیک ہول ہے وہاں آواز نہیں ہوتی, بس مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں, غیر مرئی الیکٹرومیگنیٹک لہریں, جنہیں ہم ہوا کی وجہ سے زمین پر بیٹھے سُن نہیں سکتے, صرف تمثیلا٘ اپنے ایجاد کردہ رسیور سے ایک تناسب کا اظہار بنا کر تصوراتی آواز دے سکتے ہیں... سو کیا اِن تین عورتوں کی طرح اُس کے اندر بھی کوئی تڑپ پیدا ہوئی تھی؟ جیسے پرندے ایک خاص دورانیئے کے کسی مقام پر روشنی اور درجہ حرارت کی مطلوبہ شدت پر محبت کے نغمے بولتے ہیں, عشق کے نغمے الاپتے ہیں, اور پھر جذبات کے سمندر کے تلاطم سے مغلوب ہو کر کائینات کی تخلیق سے ایک تخلیقی عمل چُن کر اُمید کے لذت بھرے چراغ جلاتے ہیں تاکہ اظہار مادی شکل اختیار کر کے نئی زندگی جنم دے....

کیا خبر وہ بھی اب مجھے یاد کرتی ہو, یاد کرکے تڑپتی ہو, زیادہ شدت سے تڑپتی ہو, اور تڑپ کر مجھے تلاش کرتی ہو, اور پھر زیادہ شدت سے تلاش کرتے ہوئے کسی دن رابطہ کرنے کے جتن کرے, اور پھر ایک دن رابطے کو عملی اظہار دینے کے لیئے سامنے آکھڑی ہو....

مگر کیا خبر اُس کا ٹائم فریم ٹوٹ گیا ہو, اور وہ سب رشتوں سے مُکت ہو کر خلا میں کہیں دور نکل گئی ہو.... روپوش ہو گئی ہو....

اُس کے دور نکل جانے کے خدشے سے میں نے اپنا ٹائم فریم تلپٹ کر دیا ہے, اب وہ لوگ جو اُس کے دیے کے روشن ہونے کی اُمید دلاتے تھے, اب وقت کے طویل دورانیوں سے تھک کر مجھے کہتے ہیں کہ کیا میرے اندر ٹائم فریم نہیں, کیا میں اُسے یاد نہیں کرتا, کیا میں اُسے یاد کر کے زیادہ شدت سے تلاش نہیں کرتا, اور پھر اِس تلاش و بسیار کی تڑپ سے مغلوب ہو کر اُس سے رابطہ کیوں نہیں کرتا, اور پھر رابطہ کر کے اُس کو کیوں نہیں سوال کرتا کہ وہ اپنے ٹائم فریم سے نکل کر کہیں ستارا بن کر کیوں نکل گئی؟
.....
عمّاریاسر
26 اگست 2023

image