خواجہ کی ڈائری
....
خواجہ محمد اعظم کی یہ تصویر دیکھ کر ناجانے کیوں دل چاہا کہ کاش میں کچھ یوں لکھ سکتا کہ ....

خواجہ صاحب اٹھارویں صدی کی آخری دہائی میں پنجاب کے دور افتادہ گائوں جانکی وال میں پیدا ہوئے. آپ مغلیہ دور کے خواجہ برادری کے چشم و چراغ تھے. خواجہ صاحب کو بچپن ہی سے گھڑ سواری کا شوق تھا۔ ابھی بارہ سال ہی کے تھے کہ گھڑ سواری کو اپنا شوق بنا لیا. دن کا بیشتر حصہ اسی شوق کی نذر ہو جاتا, یا پھر اپنی حویلی میں اصطبل سے متصل کمرے میں بیٹھے موچھوں کو تائو دینے اور نِت نئے منصوبے بنانے میں گزر جاتا.

گھڑ سواری کا یہ شوق دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا. پچیس سال کی عمر میں اِردگِرد کے دیہات میں اُن کا چرچا عام ہوا, تو ایک فرنگی دوشیزہ ڈارلین اُن پر مر مٹی. قصہ مشہور ہے کہ خواجہ صاحب اپریل کی ایک چاندنی رات میں اپنی سیاہ گھوڑی پر یونہی بیابان میں گھڑ سواری کر ریے تھے کہ سامنے وائٹ پیلس کے پچھلے باغیچے میں ڈارلیں یہ منظر دیکھ رہی تھی. سرکاری سپاہیوں سے خواجہ صاحب کو بلوایا گیا, تو اُنہوں نے آنے انکار کر دیا. یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے مسلح سپاہیوں کو یہ تک کہہ دیا کہ ایک فرنگی گوری چھوکری سے ایک بہادر سیاہ گھوڑی کہیں زیادہ بہتر ہے. خواجہ صاحب کا یہ فقرہ لازوال درجہ اختیار کر گیا... اور ہر باغی کے لبوں کا نعرہ بن گیا.

جب یہ فقرہ ڈارلین نے سنا تو بجائے غصہ کرنے کے اُس نے خواجہ صاحب کو گرفتار کر کے حضور کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا. کہا جاتا ہے سپاہیوں کی گرفت میں خواجہ صاحب کا جلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا. خواجہ صاحب کی اس بہادری اور جرات کو دیکھ کر ڈارلیں خواجہ صاحب پر دل و جان سے مر مٹی. اُس نے خواجہ صاحب کو اپنانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی, ہر حربہ استعمال کیا.. یہاں تک کہ مسلمان ہو کر درویشی بھی اختیار کر لی, اور داسی بن کر محبت کا روگ اپنا لیا. مگر خواجہ صاحب کا دل نہ جیت سکتی. اِسی غم میں خواجہ سے پہلے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئی. ڈارلین جو بعد ازاں نگینہ خاتون کے نام سے مشہور ہوئی تھی, پنجاب کے ایک گائوں پریم پور میں مدفون ہوئی. آج بھی لوگ منتیں ماننے ڈالین کے مزار پر آتے ہیں.
....
خواجہ صاحب کی اِس تصور میں بہت کچھ چھپا ہے, رعب و دبدبہ تو ہے ہی, مگر اس تصویر میں تاریخ ساز نقوش بھی موجود ہیں. یہی نہیں, اُن کے چہرے مُہرے میں جدت بھی ہے. یہی سوچ کر میں نے سوچا کہ اگر میں اُن کا خاکہ لکھتا تو کچھ یوں تحریر کرتا....

خواجہ صاحب ایک مقامی یونیورسٹی میں فوٹوگرافی کے آرٹ پر لیکچر دیتے ہیں. آپ نے کلیفورنیا کے انسٹیٹیوٹ آف ایبسٹریکٹ آرٹ سے 1979 میں نیوڈ ہیومن آرٹ پر پی ایچ ڈی کی. کچھ عرصہ وہیں پر لیکچرار بھی مقرر ہوئے, مگر پھر 1983 میں پاکستان واپس آگئے اور بعد ازاں کراچی میں آرٹ اینڈ کرافٹ کالج آف آرٹس میں بطور پروفیسر پڑھاتے رہے. آپ نے کراچی میں آرٹ آف دی نیچر کے نام سے ایک آرٹ گیلری بھی تعمیر کروائی جو آج بھی آرٹ کے میدان میں بڑا نام رکھتی ہے. کراچی آنے کے بعد آپ نے محمودہ بیگم نام کی ایک خاتون سے شادی کی. محمودہ بیگم ایک نامور شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ معروف مصورہ بھی ہیں.
....
مگر سچ ہے خواجہ صاحب کی یہ تصویر ایک کھری عکاس ہے, جو اُن کی اوریجنل شخصیت کی عکاسی کرتی ہے.

دل کرتا ہے کہ لکھا جائے یہ آرٹیسٹ شاعروں اور ادیبوں میں رھ کر فوتوگرافر کم شاعر ہو گیا یے. خواجہ محمد اعظم آرٹس کونسل آف پاکستان اور پریس کلب میں ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے, جہاں وہ بڑی بے باکی سے تصویریں اتارتا ہے. چونکہ وہ آرٹسٹ ہے, اور ایک فنکار کی طرح وہ بھی حُسن پرست ہے. وہ حسین چہروں کی تصاویر دل سے بناتا ہے, اور راقم الحروف جیسے لوگوں کی تصاویر صرف کیمرے سے اتارتا ہے.

خواجہ اعظم ایک ایسا فوٹوگرافر ہے جو کچھ تصاویر چپکے چپکے بناتا ہے. پھر ایسی خفیہ تصاویر وہ اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیتا ہے. چند دن بعد, یا کئی ماہ بعد, اور بعض اوقات ایک ڈیڑھ سال بعد وہ ایسی خفیہ تصاویر برسرِ عام لے آتا ہے. متصور اپنی ہی تصویر کو ایک عرصے کے بعد دیکھ کر حیران رھ جاتا ہے, اور پھر وہ خواجہ صاحب کے لیئے دل سے دعا کرتا ہے.

خواجہ صاحب جیسے جیسے ادیب و شاعر کے رنگ میں رنگتا جا رہا ہے, ویسے ویسے, ایسے ویسے ادیبوں اور شاعروں سے اجتناب برتنے لگا ہے.

آج کل ہماری اُن سےکم کم بات اور ملاقات ہوتی ہے.
....
عمّاریاسر
30 ستمبر 2023

image