Translate   2 years ago

تابعدار

بنت قمر مفتی
دسمبر 2021

وہ چھٹانک بھر کی لڑکی اس کے منہ پر جواب دے کر چلی گئی تھی ۔ وہ بھی طیش میں آگیا نہ جانے خود کو کیاسمجھتی ہے ۔
رضوان نے سوچ لیا تھا کہ کوئی بہانہ بنا کر اسے تو دفتر سے نکلوادے گا ۔ پھر مجبوراً مجھ سے دوستی کرے گی ۔ اسے معلوم تھا اپنے گھر کی وہ ہی واحد کفیل ہے ۔ اس کی سفارش کسی جان پہچان کے فرد نے کی تھی کہ۔بہت ضرورت مند ہے ۔ اب وہ اس کی مجبوری سے فایدہ اٹھا کر اپنی بات منوانے کی ضد پر آگیا تھا ۔
دو ماہ میں عظمی نے اپنی قابلیت منوالی تھی ۔ اعظم اس کا سینئر تھا ۔ زیادہ کچھ تو نہیں بس اس سے دوستی کا متمنی تھا ۔
وہ آفس کے ایک ہی کیبن میں تھے ۔ کبھی کبھار لنچ بھی ایک ساتھ منگوا لیتے تھے ۔ لیکن وہ اپنی حد میں رہتی تھی ۔ اسے پسند نہیں تھا کہ اعظم اسکے لنچ کی ادائیگی کرے ۔
لیکن رضوان اس سے کچھ زیادہ چاہتا تھا کہ وہ فون کال پر آفس کے علاؤہ بھی رابطہ رکھے ۔کبھی کبھار باہر ملے ۔
آج رضوان نے اسکی تعریف کی تھی ۔
"اچھی لگ رہی ہیں مس آپ ، بلکہ آپ تو ماشاءاللہ ہر روز ہی اچھی لگتی ہیں "
ناگوار تاثرات اس کے چہرے پر آئے اور وہ فائل کھول کر کام کرنے لگ گئی ۔
کچھ ہی دیر بعد رضوان نے کافی منگوائی ۔اسے بھی پیشکش کی اس نے منع کردیا ۔
وہ اٹھ کر اسکی ٹیبل پر آگیا اور اس سے دوستانہ التجا کی کہ میری کافی کو رد نہ کریں میرا دل ٹوٹ جائے گا ۔ اتنا تو حق ہے نا کہ ہم ایک ساتھ کافی پئں۔
اس نے مجبوراً کافی لے لی ۔ اسکی ناگواری رضوان سے چھپی نہ تھی ۔ لیکن وہ نظر انداز کرگیا۔ شام تک اس نے کوئی بات نہ کی۔ شام میں آفس کی گاڑی اسے گھر لے جاتی تھی رضوان نے ارادتاً اسے کام میں مصروف رکھا اور خود ہی باہر کہلوا دیا کہ مس عظمیٰ ابھی مصروف ہیں وہ لیٹ ہو جائیں گی ۔ آج رضوان کا ارادہ تھا کہ اسے گھر ڈراپ کر نے کے بہانے دوستی کی پیشکش کرے ۔
کام میں مصروف عظمیٰ کو احساس ہی نہ رہا کہ وقت گزر گیا ہے ۔ گاڑی کے چلے جانے پر وہ پریشان ہوگئی۔ اکیلے ٹیکسی میں جانے سے گھبرا رہی تھی موقع کی مناسبت سے رضوان نے اسے ڈراپ کرنے کی آفر کی۔ عظمیٰ کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا ۔
راستے میں رضوان نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے دوستی کی آفر کی تو وہ سٹپٹا گئی ۔
"سر دوستی میں نہیں کر سکتی ۔اپ شادی کی بات کریں تو سوچا جاسکتا ہے " اس نے قدرے تلخ لہجے میں کہا
"شادی تو ہوچکی ہے لیکن زندگی کسی اذیت سے کم نہیں " رضوان نے بے چارگی سے کہا ۔
اس نے سوالیہ نظروں سے رضوان کو دیکھا
"میری شادی بہت مجبوری میں ہوئی تھی ابا کو اپنی بھتیجی بہت عزیز تھی وہ ان پڑھ ہے ۔ سوسائیٹی میں میرے ساتھ نہیں چل سکتی ۔ مجھے ایک ساتھی چاہئے تم جیسا ۔ جو مجھے سنے ، مجھے سمجھے ۔ تم بہت ذہین اور سمجھدار ہو ۔ تمہارا ساتھ قابل فخر ہے۔" رضوان نے اپنا دل اس کے آگے کھول دیا ۔
"سر آپ کو اپنے والد کو منع کردینا چاہئے تھا۔ آپ تو پڑھے لکھے سمجھدار تھے ناں ۔اس وقت کی تلخی برداشت کر لیتے تو آج یوں کسی کے آگے اتنے لاچار نہ ہوتے۔اتنی تکلیف میں نہ ہوتے "
عظمیٰ کے یہ جملے سن کر رضوان بولا "شکر ہے کس کو تو اندازہ تو ہوا کہ میں تکلیف میں ہوں "
،"ویسے تو ابھی بھی آپ کے پاس دوسری کاشادی کا آپشن ہے ٰ"عظمیٰ نے سوالیہ انداز سے دیکھتے ہوئے کہا
"میں اپنے والد کی فرمانبردار ی میں یہ زہر نگل گیا۔ ان کی خاطر ہر اذیت برداشت کرسکتا ہوں لیکن انہیں نہ کہ کر تکلیف نہیں دے سکتا تھا اسی لئے انکی بھتیجی سے مجبوراََ شادی کرلی۔ اب دوسری شادی کی تو والد بہت دکھی ہوں گے ۔ میں ان کی نا فرمانی کاسوچ بھی نہیں سکتی " اعظم کا لہجہ قدرے جذباتی ہوگیا تھا " میں تو بس دوستی کا متمنی ہوں ۔ تمہیں کوئی شکایت ، کوئی تکلیف نہ ہوگی ۔ آزما کر دیکھ لو۔ میری تکلیف تمہارے ساتھ ہونے سے کم ہو جائے گی پلیز سمجھنے کی کوشش کرو ۔" اس نے پیار بھرے لہجے میں کہا
عظمیٰ کا گھر آچکا تھا وہ شکریہ کہ کر کار سے اتری اور دروازہ بند کرکے کار کی کھڑکی پر جھکی اور مسکرا کر بولی " سر آپ اپنے والد کے اتنے فرمانبردار ہیں ان کی خوشی کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پی گئے "

"بالکل میں اپنے ابا کو ناراض نہیں کرسکتا انہیں انکار نہیں کر سکتا ۔ اعظم نے مظلوم بنتے ہوئے کہا
سر میں آپکی تابعداری سے بہت متاثر ہوئی ہوں ۔ اللہ کو بہت پسند ہیں ایسے تابعدار لوگ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
اعظم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔
وہ پھر بولی
"سر آپ ایک اور فرمانبرداری کریں یقینااپ کی زندگی پر سکون ہو جائے گی جیسے اپنے ابا کی فرمانبرداری کے لئے اپنی پسند چھوڑ کر انکی پسند قبول کی ، ویسے ہی جو نصیب سے مل گیا اس پر راضی ہوکر اللہ کے حکم کے تابع ہوجائیں "