Translate   2 years ago

عنوان : آئینہ
تحریر : بنت قمر مفتی
تائی امی کی منتوں کے بعد آخر میَں نے اس بدنام گلی میں جانے کا فیصلہ لے ہی لیا جہاں آج کل میرے تایا زاد عابد میاں کا آنا جانا تھا۔جس لڑکی سے عابد کو محبت تھی اُس کی شادی کہیں اور ہو جانے پر عابد نے اپنا حال ناکام عاشقوں کا سا بنا رکھا تھا ۔ اب نہ جانے کیسے عابد نے اس ناپاک علاقے کی راہ لی تھی! میَں اُسے پہلے بھی سمجھا چکا تھا لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہاں ایک لڑکی ہے جو بہت مختلف ہے۔ وہ اس کے آگے اپنا دل کھول کر سکون محسوس کرتا تھا۔
’’اظفر بھائی وہ مجھے کہتی ہے،
’’تم جیسے مرد بھی ہوتے ہیں کیا ؟جو صرف روح سے محبت کرتے ہیں ، روح کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہاں تو سب کو زندہ جسم چاہئے ، روح کی پروا کون کرتا ہے ؟ ہماری روحوں کو مار دیا جاتا ہے اور ہمارے جسم یہاں بھٹکتے ہیں۔ کیا مرد واقعی کسی سے اتنی محبت کر سکتے ہیں کہ انہیں صرف وجود سے نہیں اس کے احساسات سے بھی محبت ہو ؟‘‘
مَردوں سے بہت نفرت کرتی ہے وہ، اور محبت پر یقین نہیں رکھتی ،وہ مجھے محبت کے خلاف دلیلیں دیتی ہے اور میَں محبت کے حق میں‘‘
میری نصیحت کو نظر انداز کر کے وہ اسی کی باتیں کیے جارہا تھا۔

’’ایسے ہی تمہیں باتوں میں گھما رہی ہے، کن چکروں میں ہو تم عابد میاں؟ اپنی عزت بچاؤ، ابھی تائی امی بے خبر ہیں کہ تم کہاں جاتے ہو ؟‘‘، میَں نے اسے پھر سے تنبیہ کی۔
’’اظفر بھائی ہمرے بیچ صرف باتیں ہوتی ہیں‘‘، عابد نے خفگی سے کہا۔

اُس دن تائی کی طبیعت بگڑ رہی تھی، اُنہوں نے دو دن سے اپنے لاڈلے کی شکل نہیں دیکھی تھی ۔ عابد نے اپنا موبائل بھی بند کر رکھا تھا۔ چارو ناچار میَں اُس علاقے میں پہنچ گیا - ﷲسے زیادہ میرے دل میں اپنی بیوی کی نظروں میں گرنے کا خوف تھا۔ معلومات لیتا ہوا میں اُس گھر کے سامنے آ گیا۔ اُس گلی میں تھے ہی کل پانچ گھر اور ان سب گھروں میں راتیں جاگتی اور حسن ناچتا تھا - مجھے وہاں موجود لوگوں سے بڑی کراہت محسوس ہو رہی تھی۔
اُس گھر میں داخل ہوتے ہی ایک لڑکی سے سامنا ہو گیا۔
لڑکی نے سر سے پاؤں تک مجھے دیکھا،سگریٹ کا دھواں میرے چہرے پر چھوڑتے ہوئے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے۔
میَں نے نفرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن لڑکی نے میرا بازو پکڑ کر روک لیا ۔۔۔۔
’’کہاں صاحب ایسے کیسے ۔۔؟ کچھ جیب تو ہلکی کرو ‘‘ لڑکی نے اپنی ہتھیلی پھیلائی۔
میَں نے حقارت سے اُسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔
’’دُور رہو مجھ سے، میَں عابد میاں کو لینے آیا ہوں، اپنی کسی حاجت کے لئے نہیں آیا‘‘ میَں نے پیسے اُسکی ہتھیلی پر غصے سے دھرتے ہوئے کہا۔

’’وہ پاک ہونے آیا ہے ناپاک عورتوں میں؟‘‘،اُس نے کھوکھلا قہقہہ لگاتے ہوئے سر جھٹکا۔

میَں آگے بڑھ کر ڈیوڑھی میں بنے کممروں سے عابد کی آواز سننے کی کوشش رہا تھا۔ کسی کمرے سے کوئی شوخ سی ہنسی، کہیں سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک کمرے کے ادھ کھلے دروازے میں جھانکا تو کالی چادر میں لپٹا ایک وجود سجدے میں جھکا ہوا سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہا تھا، ’’ ﷲ جی! ۔۔۔۔ بس کردے ۔۔ سزا ختم کردے ۔۔۔۔‘‘۔
مجھے اس کی سسکیاں دل میں چبھتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔میَں گھبرا کر پلٹا۔میری کیفیت ناقابل بیان تھی۔ نہ جانے اس عورت کی سسکیوں نے کیا اثر ڈالا تھا! مجھے لگا کسی نے مجھے پوری قوت سے گھما دیا ہو۔ میَں چکرا سا گیا۔۔۔
وہیں پر پڑے ایک بنچ پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتی وہی لڑکی بھاگ کر پانی لے کر آئی ۔۔’’ناپاک نہیں ہے صاحب ‘‘۔اُس نے گلاس کو کپڑے میں لپیٹ کر آگے بڑھایا۔
میَں نے ایک ہی سانس میں پانی پی لیا۔ میرا ذہن کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’کیا دیکھ لیا آپ نے؟‘‘ لڑکی نے پُوچھا۔
’’وہاں کوئی .... سجدے میں‘‘ میری زبان لڑکھڑائی۔
’’ارے صاحب جب بھی کوئی نئی آتی ہے نا بے چاری بد نصیب ایک دو بار یہاں سے بھاگنے کی کوشش بھی کرتی ہے پھر ایسے ہی سجدوں میں پڑی رہتی ہے۔ لیکن ہماری کون سنتا ہے ؟ ہم مردہ روحیں اور بھٹکے ہوئے جسم ہیں، سانس لیتی لاشیں‘‘، نہ جانے کیا فلسفہ جھاڑ رہی تھی وہ لڑکی۔
میَں بالکل نہیں سمجھ رہا تھا، بس وہ سسکیاں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
میری کیفیت دیکھ کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔ میَں نےکراہت سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
’’ اتنی حقارت کیوں ہے صاحب؟ ہم بھی انسان ہیں ۔اصولاً نفرت تو مرد سے ہمیں کرنی چاہئے‘‘ لڑکی بولی۔
’’اچھا‘‘ میں نے طنزاً کہا۔

’’ہاں مردوں کے لئے ہی تو یہ بازار سجتا ہے ۔۔ مرد ہی عورت کو بازاری بنا دیتا ہے ۔۔ کوئی عورت تو عیاشی کے لئے یہاں نہیں آتی ۔ عورت کے لئے تو نہیں سجتا یہ سب ۔۔ کاش یہ نام نہاد غیرت مند مرد اپنی عورت کی عزت کرنے والا اور سچ مُچ کا محافظ بن جائے تو کہیں بھی ایسے بازار آباد نہ ہوں ۔ بازاری عورت سے بہت نفرت کرتے ہیں نا یہ مرد اور اس بازار کے گاہک بھی مرد ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ غیرت مند مرد ‘‘ ۔۔۔۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ کھوکھلی ہنسی ہنستے ہوئے کہتی جا رہی تھی۔

میَں بنچ سے اٹھ کر کمروں کی جانب جانے لگا تو وہ بول پڑی "بیٹھ جاؤ کچھ دیر میں آجائے گا تمہارا دوست۔ تم جیسے پاک عزت دار مرد کو زیب نہیں دیتا خوامخواہ کی ٹوہ لینا‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’وہ لڑکی ۔۔۔۔۔ ‘‘، میَں نےبرآمدے کے بنچ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ میرا تجسس قائم تھا، ایسا بھی کچھ یہاں ہوگا میرے تصور میں نہیں تھا میَں نے ذہن جھٹکنا بھی چاہا لیکن وہی وجود نظروں کے سامنے آ رہا تھا۔

’’مری ہوئی روح ہے صاحب، بھٹکا ہوا جسم ہے‘‘، ڈبیا سے سگریٹ نکالتے، سلگاتے ہوئے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کرتے اُس نے کہا۔

’’کوئی عزت دار مرد اس کی روح کا قاتل ہے۔ محبت کے قبرستان میں اسکی روح دفن کردی گئی ہے۔ اس کی وفا اپنی روح کی قبر پر ماتم کرتی ہے ، کوئی انصاف نہیں یہاں قاتل کھلے عام با عزت پھر رہے ہیں‘‘، اس نے مجھ پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا
’’ قتل تو جسم کا ہوتا ہے بھٹکتی تو روحیں ہیں بھلا روحیں بھی کہیں دفن ہوسکتی ہیں‘‘، میَں نے اسکی بات کی تردید کی۔

’’سانس لیتی لاشیں ہیں ہم جو یہاں بھٹکتی رہتی ۔۔۔۔ ہماری روحیں مدفن ہیں ۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے صاحب؟ یہ نام نہاد عزت دار مرد اگر یہاں آنا چھوڑ دیں تو ہمارا وجود بھی بھٹکنے سے آزاد ہو جائے ۔ کوئی ہمیں بھی ناپاک نہ بولے ۔۔ ‘‘ پھر سے کیا فلسفہ جھاڑ رہی تھی وہ ۔

میرا دھیان سجدے میں پڑے اس وجود میں اٹکا ہوا تھا۔
’’یہ لڑکی نئی آئی ہے کیا‘‘، میَں نے پھر سے سوال کردیا۔
اُس لڑکی نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور آنکھیں سکیڑ کر مجھے دیکھنے لگی۔ میَں بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

’’یہاں چار سال پہلے آئی تھی۔ کسی لڑکے سے محبت ہوگئی تھی۔دوسرے شہر ہاسٹل میں رہتی تھی۔ فون پر بات کرتے کرتے محبت ہوگئی اُسے۔ ایک دن اس لڑکے کے بہت اصرار پر اُس سے ملنے گئی تھی۔ ہوٹل میں بلایا تھا لڑکے نے۔ بختوں کی ماری ، محبت میں مان گئی، ملاقات کرنے گئی تھی لیکن اُسی دن ہوٹل پر پولیس آ گئی! وہ عزت دار مرد تو اپنی عزت بچا کر فرار ہوگیا۔یہ بے چاری پولیس کے ہاتھ لگ گئی۔ گھر والوں نے اپنی عزت بچائی، وارث نہ بنے۔اور لڑکا؟ وہ تو غائب ہوگیا۔ بے چاری پومی‘‘، وہ ڈبی سے دوسری سگریٹ نکال کر سلگانے لگی۔
’’ پومی‘‘! میَں نے نام دہرایا۔ پانچ سال پہلے کاواقعہ میرے ذہن میں گھومنے لگا۔

میَں نے پشمینہ کو پسند کیا تھا۔ اُس وقت تو یہ ہی لگتا تھا اُس سے محبت ہے مجھے، لیکن وہ ملاقات کے لئے مانتی نہیں تھی، میری بری نیت تھی، میَں بس اسے اپنے سامنے بیٹھے دیکھ کر رو برو کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا اور اپنی اس خواہش کے لئے میں نے اسے چھوڑنے، کبھی دوبارہ بات نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ملاقات کے مقام پر ایسے لوگ آتے ہوں گے میں لا علم تھا اور اُس دن وہاں پولیس آگئی۔ میَں پولیس کے ڈر سے اُسے وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میَں اتنا ڈر گیا کہ اُس کی خبر ہی نہ لی، موبائل کی سِم بدل لی۔ سوچا ہی نہیں کہ جو میری محبت کے بھروسے میرے اصرار پر اتنا بڑا قدم اٹھا گئی تھی اسکی عزت کا کیا ہوا ہوگا۔ اس معصوم محبت کا اتنا سفاک انجام۔ مجھے وہاں گھٹن ہونے لگی۔ میَں گھبرا کر باہر نکل آیا۔ اِس بدنام گلی میں آتے ہوئے مجھے اس علاقے سے جتنی کراہت محسوس ہورہی تھی اس سے دگنی کراہت مجھے اپنے وجود سے محسوس ہورہی تھی۔
یہ کیسا آئینہ دکھائی دیا تھا مجھے کہ میں خود کو ہی نہ پہچان سکا، روح کو چھلنی کرنے والا، انسانی وجود کو مسخ کر دینے والا قاتل ہوں میَں۔ کیا میں اس لائق ہوں کہ خود کو کہ سکوں غیرت مند مرد ؟؟؟‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔