Translate   4 years ago

طنزومزاح انٹرویو " فضائی ائیر لائن کے سربراہ " تحریر: محسن نقی
ناظرین السلام وعلیکم آج ہمارے مہمان فضائ ائیر لائن کے سربراہ ہیں جن سے ہم موجودہ ائیر لائن کے حادثے پر گفتگو کریں گے یہ حادثہ عید سے دو دن پہلے ہوا قوم کرونا وبا سے پہلے ہی پریشان تھی مگر اس حادثے نے قوم کی عید کی خوشیوں کو بھی چھین لیا اب پوری قوم اس حادثے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے آئیں ہم فضائی ائیر لائن کے سربراہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں
میزبان : السلام و علیکم
سربراہ : جی وعلیکم السلام
میزبان : سب سے پہلے ہم آپکا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے پروگرام میں بروقت ساتھ خیریت سے تشریف لائے ورنہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری ائیر لائن اور ان کا عملہ بھی اپنی زمہ داریوں میں تاخیر کا مظاہرہ کرتا ہے
سربراہ: نہیں ایسی بات ہر گز نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے اور جب سے ہمارے ادارے نے شیطانی کام چھوڑے ہیں تو ابھی اس کوشش کو زیادہ سال بھی نہیں گزرے مگر پوری قوم چاہتی ہے کہ صبر کا پھل فوری مل جائے اب قوم کی خواہش کو پورا کرنے کے لیئے ہمارے پائلٹ اپنے ساتھ قوم کے مسافروں کو شہادت کا پھل دے رہے ہیں مگر اس لازوال قربانی کو بھی ہمارے ادارے کی غفلت قرار دیا جا رہا ہے
میزبان: اچھا موجودہ حادثے کے بارے میں بتائیں کہ یہ کس کی غفلت کی وجہ سے ہوا ؟
سربراہ : جی اب تک کی انکوائری سے پتا چلتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح مرنے والے پائلٹ کی غلطی تھی ؟
میزبان : مگر اس کا تو آخری پیغام تھا کہ انجن فیل ہو گیا ہے؟
سربراہ : جی وہ جہاز کے انجن کا نہیں بلکہ اپنے دماغ کے انجن کے فیل ہونے کا بتا رہا تھا جہاز تو بلکل اے ون ٹھیک ٹھاک تھا
میزبان : ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ہر حادثے کے بعد جہاز کے مرنے والے پائلٹ کو ہی قصوروار قرار دیا جاتا ہے ایسا کیوں ہے ؟
سربراہ: جی آپ کو اتنی چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آتی جو جہاز چلائے گا وہی جہاز کو کنٹرول کرے گا اور ایسا نہیں تو پھر ملک کے سربراہ کو بھی ملک درست طور پر نہ چلنے پر قصوروار کیوں ٹہرایا جاتا ہے
میزبان: ( تھوڑا گھبراتے ہوئے ) اچھا اگر یہ بات ہے تو یہ بتائیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
سربراہ : جی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، کچھ آف دا ریکارڈ باتیں ہیں کچھ ہمیں طیارے کے رن وے پر آنے اور پھر فضا میں تین ہزار فٹ پر چلے جانے کا بھی علم ہوا ہے جس سے کچھ کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ جس طرح عید سے پہلے سائنسی وزیر اور مولانا مزہبی امور کے درمیان عید کے چاند کا جو اختلاف چل رہا تھا تو ہوسکتا ہے کہ پائلٹ تین ہزار فٹ کی بلندی پر چاند دیکھنے کی کوشش میں لگ گیا ہو اور چاند نظر نہ آنے پر مایوس ہو کر وہ جہاز پر کنٹرول نہ رکھ سکا ہو ، اور پھر جلدی اترنے کے چکر میں جہاز کا حادثہ ہوگیا ہو کیونکہ جہاز رن وے پر رگڑتا ہوا بھی گیا ہے یہ شاید پائلٹ کے دماغ میں وزیر اور مولانا کی چپقلش کا کوئ غصے کا اثر ہو
میزبان: ایک طیارہ پہلے بھی گلگت کی برف پوش پہاڑیوں میں گرا تھا جس کا آج تک نہیں پتا چلا یا اس کا پتا چلانے کی کوشش نہیں کی گئ ؟
سربراہ: جی اگر اس وقت کم از کم پائلٹ ہی زندہ مل جاتا تو پوری قوم جان لیتی اس سیر سپاٹے کو؟
میزبان : آپ اسے سیر سپاٹا کہ رہے ہیں؟
سربراہ: جی اور کیا کہیں گے کیا لوگ مری وغیرہ ٹھنڈے علاقوں میں نہیں جاتے ؟
میزبان: مگر اس وقت تو مسافروں کی منزل کوئ اور تھی؟
سربراہ: جی میں بھی یہ بات جانتا ہوں یہی تو اس پائلٹ سے ہم سب پوچھتے کہ جب منزل کوئ اور تھی تو تم یہاں جا کر کیوں گر پڑے جو اپنے ساتھ ادارے کا تاریخی جہاز بھی تباہ کر دیا؟
میزبان : پائلٹ بھلا ایسا کیوں کرے گا؟
سربراہ : کیوں ہم اور آپ جب کہیں جاتے ہیں اور کوئ خوبصورت خاتون لفٹ مانگے تو کیا ہمارا دل کرتا ہے اسے انکار کرنے کا اسی طرح ہو سکتا ہے کسی لیڈیز پیسنجر یا ائیر ہوسٹس نے بڑے پیار سے پائلٹ کو کہ دیا ہو کہ تھوڑی دیر برف میں نہ گھوم لیں اور یہ اچانک سن کر پائلٹ جہاز کے ساتھ گھوم گیا ہو اور پھر یہ غفلت کا مارا ہوائ پریمی جوڑا اپنے ساتھ تمام نیک پیسنجرز کو لے کر برف پوش پہاڑیوں پر اترا ہو اور وہاں برف میں جہاز کے ساتھ گم ہو گئے
میزبان : قوم آپکے ادارے سے مطمئن نہیں ہے؟
سربراہ : وہ تو کسی طرح کسی بھی سواری سے مطمئن نہیں کبھی کہتی ہے رکشہ کا میٹر تیز چلتا ہے کبھی کہتے ہیں کہ بسیں تیز رفتاری سے حادثے کرتی ہیں کبھی ریل میں لوٹا نہ ہونے کا رونا کبھی اس لوٹے کے زنجیر سے بندھنے کا شکوہ کبھی کوچ کا تیز رفتاری سے اگلے دو اسٹاپ اتارنے کی شکایت یہی ہماری ائیر لائن سے شکوے کہ انتظامات اچھے نہیں باہر کی ائیر لائن کی طرح سہولیات نہیں جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہاں اسلامی ملک میں سب کے سامنے صرف حلال چیز ہی پیش کی جاتی ہے چاہے خواہش منہ زور گھوڑے کی طرح ایڑ لگائے یا چارے کی ڈبل بلیک میں قیمت بھی دینے پر اسرار کرے
میزبان : یہ شکایت بھی ہے کہ آپکی ائیر ہوسٹس بھی خوش اخلاق نہیں ہیں ؟
سربراہ: توبہ کریں جی ماضی میں خوش اخلاقی سے پیش آنے پر ائیر ہوسٹس فضائی سفر کرتے کرتے یا تو کاک پٹ کی ہو کر رہ گئیں یا اپنے کسی احمق پیسے والے محبوب کے نکاح میں چلی گئیں اس لیئے اب ادارے نے انکے چہروں پر صرف اتنی مسکراہٹ رکھی ہے جتنی گھر میں عام چالاک بیوی رکھتی ہے مخاطب ہونے پر مرد پیسینجر انکے تیور دیکھ کر تصور میں اپنی بیوی کو یاد کرنے لگتے ہیں یوں انکے جزبات نامحرم سے محرم کے روٹ پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں
میزبان : آپ کو سترہ اگست 1988 کا فضائی حادثہ بھی یاد ہوگا اسکی بھی رپورٹ کا آج تک قوم انتظار کر رہی ہے؟
سربراہ: جی وہ حادثہ نہیں دو بڑوں کی لڑائ کا خمیازہ تھا
میزبان : ( حیرت سے ) کیا مطلب ؟
سربراہ : آپ کو پتا ہے کہ اس جہاز میں آم کی پیٹیاں بھی تھیں
میزبان : تو آم کی پیٹیوں سے جہاز کے حادثے کا کیا تعلق ؟
سربراہ : آپ بھی پوری قوم کی طرح بھولے بادشاہ ہو ، یار آپ کو اتنی سی بات نہیں معلوم کہ آم پھلوں کا بادشاہ ہے
میزبان : وہ تو ہے مگر ،،،،،،،؟
سربراہ: میں بتاتا ہوں پریشان نہ ہوں بھائ جان جہاں پھلوں کا بادشاہ بھی ہو اور وہیں ریاست کا بادشاہ بھی ہو تو یہ بتاو ایک جگہ ایک جہاز میں دو بادشاہ کس طرح ساتھ ساتھ اپنی بادشاہت کا یقین دلاتے
میزبان : ( حیرت سے سر کھجاتے ہوئے ) پھر آگے کیا ہوا؟
سربراہ : ہونا کیا تھا جناب لڑتے لڑتے ہوگئ گم ایک کی چونچ اور ایک کی ،،،،،،،،،،،چلو چھوڑو یار کیوں ہمارے ادارے اور ہماری نوکری کے پیچھے پڑے ہو
میزبان : طیارے کافی پرانے ہوگئے ہیں اب دوسرے طیاروں کا بندوبست کیوں نہیں ہوتا ؟
سربراہ: جب تک ملک کو چلانے والے اچھے پائلٹوں کا بندوبست نہیں ہوتا قوم کو یہ ڈبلیو گیارہ ویگن جیسے طیاروں پر ہی گزارہ کرنا ہوگا
میزبان : قوم کے لیئے کوئ پیغام دینا چاہیں گے؟
سربراہ : قوم سے یہی کہنا چاہوں گا کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا، اور کہیں بھی چڑھیں ساتھ خیریت سے اترنے کی دعا پہلے کریں ورنہ خالق حقیقی سے ملنے کا نادر موقع تو آپ فضائی حادثات میں دیکھ ہی رہے ہیں
میزبان: آپکا بہت بہت شکریہ
سربراہ: آپ کا بھی شکریہ، کبھی آپ بھی ہمارے پاس تشریف لائیں آپکو ادارے کے طیارے میں مفت سفر کراتے ہیں
میزبان: نہیں جناب بہت بہت شکریہ میں ابھی جینا چاہتا ہوں اللہ حافظ
سربراہ: اللہ نگہبان

image