Translate   4 years ago

افسانہ: مونا
تحریر : محمد الیاس خان
انتساب : علی محسن رضا کے نام

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
"ایک بات کہوں سر" جی بولیں۔
" میں آپ کو پسند کرنے لگی ہوں سر"
"تو کیا پہلے ناپسند کرتی تھی۔ " میں نے بات کو تفریح کے انداز میں لیا۔ منیرہ یعنی مونا سے مجھے یہ توقع بالکل بھی نہیں تھی کہ وہ ایسی بات کر سکتی ہے۔ مجھے یہ شائبہ بھی نہیں تھا کہ اس بات کا وہ مفہوم ہوسکتا ہے جو عام طور پر لیا جاتاہے۔
"میں آپ کو چاہنے لگی ہوں سر " مجھے یوں لگا کہ جیسے میں نے سمجھنے میں غلطی کی ہو۔
کیا کہا؟ میں نے اس بار وضاحت طلب نظروں سے سامنے بیٹھی مونا کو دیکھا۔
میرے دوست کامران کی ایک ٹیوشن اکیڈمی کھول رکھی تھی۔ جہاں وہ شام کے وقت میٹرک تک کے بچے بچیوں کو لینگویج اور ٹیوشنز پڑھاتا تھا۔ ہاسٹل کے قریب ہونے کی وجہ سے میں اکثر یہاں آتا رہتا۔ دوست بھی اکثر کوئی کلاس میرے متھے لگا کر چھوڑ جاتا۔ شروع میں یہ میرے لئے محض تفریح تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر پڑھانے کا کیڑا موجود ہے ۔ اور یہ کہ میں لیکچر دئے بنا نہیں رہ سکتا۔ اکیڈمی میں ایک بنگلہ نما عمارت کے گراؤنڈ فلور پر قائم تھی ۔ جس میں صبح کی شفٹ میں ایک پرائمری سکول قائم تھا۔ جب کہ شام کے وقت کامران چند دوستوں کے ساتھ ملکر یہاں ٹیوشن اکیڈمی چلاتا تھا۔ دو تین کلاس رومز اور ایک چھوٹا سا آفس تھا۔ جسکا دروازہ کلاس رومز کے بالکل سامنے تھا افس میں بیٹھا شخص کھلے دروازے سے تین کلاس رومز پر نظر رکھ سکتا تھا۔
منیرہ کچھ دو مہینے قبل میرے پاس ٹیوشن کے لیے آئی تھی۔ اسے سیکنڈ ائیر کے فزکس میں کچھ مشکلات تھیں۔شروع میں ٹیوشنز پڑھانے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔
منیرہ سیکنڈ ائیر کی واحد سٹوڈنٹ تھی۔کامران خود میٹرک تک فزکس تو پڑھا لیتا تھا لیکن انٹر کے لیے خود پر اعتماد نہ تھا ۔ کیمسٹری اور بائیو پر اسے اچھا عبور تھا۔ کامران نے کہا " اس کے کلاسز کسی وجہ سے مس ہوگئے ہیں اگر تم فزکس کو تھوڑا وقت دے سکو تو ہم اسے رکھ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اگلے سیشن یا اسی سیشن میں ہمیں فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر کے مزید سٹوڈنٹس بھی مل جائیں۔" میں مان گیا۔
منیرہ جسے سب مونا ہی کہتے تھے ۔ خود کو ایک بڑی سی چادر میں لپیٹ کر ٹیوشن آنی لگی۔ اکیلی سٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے ہم اکثر اسے آفس میں ہی سامنے بٹھا کر پڑھاتے تھے۔ منیرہ قابل لڑکی تھی۔ گھر پر محنت کرتی تھی۔ مجھے زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ میتھس میں البتہ کمزور تھی۔ نومیریکلز اور فارمولاز پر محنت کرنی پڑتی۔ لیکن جلد ہی سلیبس میں رواں ہوگئی۔

وہ اپنی عمر کے حساب سے کافی میچور اور کام سے کام رکھنے والی لگتی تھی۔ طبعاً کم گو اور خاموش تھی۔ چہرے پر نقاب تو نہ تھا البتہ دوپٹہ اسکارف بہت گریس فل انداز میں یوں لپیٹے رکھتی کہ سر کے بال کبھی نظر نہ آتے اور نہ گلے میں قمیص۔ ہم صرف اسکا چہرہ ہی دیکھ پاتے ۔ باہر نکل کر وہ چادر یوں اوڑھ لیتی کہ چہرہ بھی نظر نہ آتا۔۔ کچھ میری بھی عادت تھی کہ غیر ضروری باتیں نہیں کرتا۔
وہ میرے لئے محض ایک سٹوڈنٹ تھی۔ اور میں صرف ایک ٹیچر تیسری کوئی بات کبھی درمیان میں نہ آئی۔ نہ میں نے کبھی ذاتی نوعیت کی پوچھ گچھ کی نہ اسے کبھی ایسے کسی سوال کا موقع دیا۔

ہفتہ دس دن بعد میں کامران اور مونا افس میں موجود تھے۔ جب میں آیا تو کامران نے مجھے مونا کو اردو کے چند شعر سمجھانے کا کہا یہ میرے اردو کے کیڑے سے کامران بھی واقف تھا۔ میں نے شعر سمجھائے تو مونا نے کہا "سر اپ اردو بھی پڑھائیں۔ " یوں میں ہفتے میں دو دن اردو کی بھی کلاس لینے لگا۔
اردو کی کلاس میں ہماری ہلکی پھلکی ڈسکشن ہونے لگی۔ مونا مجھے کتابی قسم کی لڑکی لگی جس کو کلاس رومز ڈسکشن پسند تھے۔ وہ سوال جواب میں دلچسپی لیتی تھی۔ میرا ماننا ہے کہ لینگویج یا لٹریچر کی کلاس دلچسپی سے بھر پور ہونی چاہیے۔ ٹیچر کا کورس سے ہٹ کر مطالعہ ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ اسے وقت پر استعمال کر سکے۔ اچھا شعری ذوق رکھتی تھی۔ مونا کو کتابوں سے ہٹ کر تشریحات پسند آتی۔ اس نے خود بھی کچھ کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ کچھ میں نے بھی تجویز کیے۔ ۔
لیکچر کے دوران اگر میں کوئی شعر وغیرہ حوالے کے طور پر کہتا تو وہ اپنے پاس نوٹ بک میں کرتی۔ کلاس کا ماحول تو نہیں تھا۔ گفتگو میں ہلکی ظرافت آگئی تھی۔ لیکن یہ استاد شاگرد کے عمومی دائرے کے اندر تھی۔ ایسا کوئی موقع نہ آیا کہ یہ گفتگو سبق کے دائرے سے نکل جاتی۔

دو مہینے گزر گئے مونا کا سلیبس بھی تقریباً کور ہوگیا۔ اور میرا بھی امتحان سر پر تھا ۔ یونیورسٹی میں آخری سال تھا پھر مجھے اپنے گاؤں جانا تھا۔ سو یہ بات آنجام تک آپہنچی۔
اخری دن میں نے مونا کو کچھ پڑھایا نہیں۔ سلیبس میں ایک ادھ ٹاپک باقی تھا میں نے اسے خود سے پڑھنے کا کہا۔ پھر اس سے جنرل کچھ باتیں کیں۔ عملی زندگی کے بارے میں کچھ ٹپس دئے۔ کیرئیر پر بات کی۔ ٹیوشن کا وقت تقریباً ختم ہو گیا تھا ، کامران اور اکیڈمی کے دوسرے ٹیچرز کلاسز میں تھے۔ وہ آفس میں میرے ساتھ اکیلی تھی۔ جب اچانک اس نے کہا۔
"ایک بات کہوں "
ہاں بولو
"میں آپ کو پسند کرنے لگی ہوں"
"تو کیا اب تک ناپسند کرتی تھی۔" میں نے تفریحا کہا۔
"میرا مطلب ہے ، سر میں آپ کو چاہنے لگی ہوں"
میں نے بے یقینی سے پہلی دفعہ مونا کی آنکھوں میں جھانکا۔ میں کچھ اندازہ نہیں کرسکا کہ مونا اتنی گہری لڑکی تھی کہ مجھے اسکا پتہ نہ لگنے دیا یا میں ہی اتنا سادہ تھا کہ جب وہ یہ سفر طے کر رہی تھی۔ تو میں بے خبر رہا۔
میں شاک میں چند لمحے بول نہ سکا۔ پھر دھیرے دھیرے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"مونا بطور ٹیچر مجھے آپکی اس بات سے مایوسی ہوئی۔ آپ نے استاد کو کچھ اور سمجھا۔ اپنا خیال رکھنا۔ ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔" اور افس سے نکل آیا۔
(نوٹ : اسے ایک افسانہ سمجھ کر پڑھ لیجئے۔ گو یہ صرف ایک افسانہ نہیں ہے)