Translate   4 years ago

گو استادی اب میرا پیشہ ہے لیکن مجھے ملے بھی ہیں تو فزکس اور میتھس جیسے خشک مضامین ، جہاں شوخی ظرافت زبان دانی اور نکتہ سنجی کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ تعلیمی پس منظر میرا سائنس اور جغرافیہ کا ہے۔ اگر کبھی عشق کے پیچ لڑائے بھی تو پتھروں سے،گرینائٹ ، بسالٹ، گبرو، کرسٹ مینٹل کور کے ساتھ ۔
جب میں پہلی بار ایک پرائیویٹ سکول کلاس روم میں داخل ہوا۔ تو یہ اردو کے لفظ ہی تھے جس نے میرے تیر و تفنگ بن کر مجھے ناہنجار لڑکوں کی چیرہ دستیوں سے بچائے رکھا۔
اردو زبان و ادب سے میرا تعلق کلیتاً حادثاتی ہے۔
گورنمنٹ ہائی سکول باغ میدن میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا تو بتایا گیا کہ ایک جلاد صفت استاد لطیف آللہ صاحب اردو پڑھائیں گے۔ لطیف اللہ صاحب میں جلادوں والی بات تو نہ تھی لیکن اردوئے معلی کے قواعد وانشاء کے بارے میں خاصے بے رحم تھے۔ زیتون کی پتلی سی چھڑی سے مارتے کم ڈراتے زیادہ تھے۔ یہ آج کی ہماری اردو دانی (اگر ایسا کچھ ہے بھی تو ) واقعتاً استاد لطیف اللہ صاحب سے ڈر کی دین ہے۔
میٹرک تک چار سال ان سے اردو پڑھی تو اُردو سے انسیت کا ننھا منا سا پودا ایک ہمارے دل میں بھی لگ گیا۔
غالباً ساتویں میں پہلی دفعہ سکول کی لائبریری میں داخل ہوا۔ انوار جہان صاحب انچارج تھے۔ کتاب دیتے اور لیتے وقت ایک موٹے سے رجسٹر میں کتاب اور نام سامنے دستخط کرتے تھے۔
ہمارا آٹھ نو لڑکوں کا گروپ تھا۔ طارق ، عرفان اعجاز، تحسین اور میں مستقل پڑھنے والوں میں تھے۔ ہماری کتب بینی سے تنگ آکر کر انوار جہان صاحب لائبریری کی چابی اپنے بھتیجے طارق کے حوالے کرنے لگے دستخط وہ بعد میں خود کرتے تھے ہم صرف رجسٹر میں اینٹری کرتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ انوار جہان صاحب کے دستخط بھی ہم خود ہی کرنے لگے۔
طارق کا ذہنی رجحان دینی کتب کی طرف تھا۔ اعجاز عمران سیریز پڑھتے رہے، عرفان ناولوں کا رسیا تھا ، اور میرا تاریخ اور ادب ۔ لیکن یہ موضوعات وقت کے ساتھ بدلتے رہے۔ دسویں تک لائبریری میں شائد ہی کوئی کتاب ایسی بچی ہوگی جو ہر ایک نے نہ پڑھی ہو۔ ایک دو روز میں کتاب پڑھنا معمول تھا ہفتے میں چار پانچ کتابیں تو پڑھ ہی لیتے تھے۔

کالج میں گئے ، محمد خان صاحب ہمارے پرنسپل اور اردو کے استاد تھے۔ بلا کے سخن فہم تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے پڑھے تھے۔ اور گورنمنٹ سکول سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ تھے۔ اپنے شعری ذوق میں یکتا تھے تو اسے طلباء میں منتقل کرنے کی خوبی بدرجہ اتم پائی تھی۔
سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ سینکڑوں ہم سے حفظ کروائے تھے۔ ایک بار کلاس میں آئے ، پتہ نہیں کیا سوجھی۔ فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ائیر کی مشترکہ کلاس بلائی۔ اور بیت بازی کا مقابلہ کروایا۔ اقبال سے بڑی انسیت تھی۔ کہا کہ جو لڑکا اقبال کے پچاس شعر سنائے گا پچاس روپے انعام پائے گا۔ کئی لڑکوں نے کوشش کی کوئی تیس پر اٹکا کوئی چالیس پر۔ سیکنڈ ائیر سے حسن ذکاء کو بلوایا۔ حسن ذکاء نے بال جبریل حفظ کر رکھی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے سو شعر سنائے۔ تو جیب میں ہاتھ ڈال کر سو کا نوٹ نکالا اور حسن کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ "بیٹا باقی پھر کسی کلاس میں سن لیں گے"
وفاقی اردو یونیورسٹی میں وارد ہوئے۔ پہلے سیمسٹر میں اردو لازمی کا ایک کورس تھا۔ میڈم کہکشاں پڑھاتی رہیں۔ میڈم کے بارے میں مشہور تھا۔ کہ ان کی کتاب میں اے گریڈ نہیں ہے۔ میں نے کہا اس دفعہ میڈم کو ایک سپیشل اے گریڈ نکالنا پڑے گا۔ اور جب نتیجہ آیا تو گلشن اقبال کیمپس کے سات آٹھ ڈپارٹمنٹس جہاں وہ اردو پڑھاتی رہی، میں اس سال صرف میں ہی تھا جس کے پرچے پر اے گریڈ تھا۔
کہکشاں صاحبہ نے ہی صحیح معنوں میں غالب سے تعارف کروایا۔ سکول کالج اور پھر یونیورسٹی میں بھی میرے دوستو نے میرے نام کے ساتھ چاچا غالب کا بھتیجا جوڑے رکھا تھا ۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ غالبٓ کون ہے اور کیوں کر غالب ہے۔
~~پوچھتے ہیں وہ کہ "غالب کون ہے؟"
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

محمد الیاس خان

۔۔