Translate   4 years ago

اور لائن کٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ...........

رات تین بجے کے بعد فیس بک سے اُکتا کر یوٹیوب کھول لیا۔ ادھر اُدھر کی سرفنگ میں پانچ بج گئے۔ آج اتوار تھا یونیورسٹی اور اسکول دنوں سے چھٹی تھی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں کے باوجود اتوار کی صبح تک جاگنا میرا معمول تھا۔ دن چڑھے اٹھ کر اپنے کپڑے دھو کر استری کرنے ، اور کمرے کی صفائی کے علاؤہ میرا کوئی کام نہ تھا۔
موبائل پر ڈیڑھ بجے کا الارم لگا کر اسے تکیے کے نیچے ڈال دیا۔ کچھ دیر یونہی لیٹا رہا لیکن نیند نہ آئی تو میوزک لگانے کی غرض سے موبائل فون پھر سے آن کیا۔ ہلکی ٹیون میں میوزک میرے لیے نیند کا ماں کی لوری سے زیادہ اکسیر نسخہ ہے۔
کچھ دیر میوزک سنتا رہا۔ لیکن یہ گانے میرے بارہا سنے ہوئے تھے۔ ہر ایک گانے کے ساتھ ایک احساس جڑا ہوا تھا۔ میں نے بڑی محنت سے یہ پلے لسٹ ترتیب دیا تھا۔ لیکن آج اچانک مجھے موسیقی کے مدھر تانوں سے بوریت سی محسوس ہونے لگی۔
موبائل کی سکرین روشن کرکے میں نے بلا سوچے سمجھے وہ پرائیویٹ چیٹنگ ایپ کھول دیا۔ جس پر اپنی مرضی کے فرضی نام، عمر اور شہر کے ساتھ آپ کسی بھی عمر ، جنس یا شہر کے کسی اجنبی سے بات کر سکتے ہیں۔ پیچھے نہ موئی ہسٹری اور نہ کوئی یاداشت، جیسے ہی لائن منقطع ہوگئی تو چیٹ ہسٹری خود بخود ڈیلیٹ ہوجاتی ہے۔
ایپ پر میری شناخت کراچی کے بائیس سالہ عادل کی تھی۔ چند آن لائن لوگوں کو سکرول کرکے مین نے لاہور کی اکیس سالہ ثمرہ کے نام پر کلک کیا۔ اسے پرائیویٹ میسیج میں ہیلو کہہ کر میں گروپ چیٹ روم کے میسجز پڑھنے لگا ۔ کسی نے سستے لطیفے بھیجے تھے۔ کسی نے ہیلو کہہ دیا تھا۔ لیکن زیادہ تر مسیجز ردا نامی یوزر کے جواب میں تھے جس نے صرف ہائے گائیز کا میسیج کیا تھا۔ اور اب سارے اسے پرائیویٹ چیٹ میں لانے کی کوشش میں لگے تھے۔ کئی ایک نے فیک ہونے کا طعنہ بھی دیا تھا۔
میرے ہیلو کے پیغام کے چند ہی لمحے بعد اس نے ہائے کہا اور ساتھ مسکرانے کی ایموجی بھیج دی۔ میں نے مسکرا کر اسے ہلکی سی ظرافت کے ساتھ کہا۔ "یہ مسکراہٹ رات بھر جاگنے کے بعد بھی قائم ہے یا ابھی جاگ کر ہونٹوں پر سجائی ہے " جواب کٹاک سے آیا۔
"نہیں ، صبح کی طرح بالکل تازہ ہے"
چند منٹ کی گفتگو میں مجھے ثمرہ نے بتایا کہ لاہور ثمن آباد کے ایک کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر تھی۔ ریاضی اور اردو پڑھاتی تھی۔ سیاست سے بے زار تھی۔ سیاحت کا شوق تھا۔ کتابیں پڑھنے کا جنون تھا۔ اور اردو سے ازلی محبت تھی۔
گو مجھے ان معلومات کی سچائی کا یقین نہ تھا لیکن اس کے لہجے شوخی مجھے مجبور کر رہی تھی کہ میں کرید کرید کر پوچھتا رہوں اور وہ چٹخارے لیکر بتاتی رہے۔
میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی کے ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکول میں جیوگرافی اور سائنس پڑھاتا ہوں ۔ جھوٹ بولتے ہوئے اسے کہا کہ مجھے میتھ سے حد درجہ الجھن ہے۔ البتہ اردو سے مجھے یکساں وابستگی ہے۔
پوچھا "شاعری پڑھتے ہو۔ "
کہا "اچھی شاعری میری کمزوری ہے" کہنے لگی "مجھے غالب پسند ہے" میں نے بتایا کون ہوگا جسے غالب پسند نہ ہو۔ لیکن غالب کو پسند کرنے والے بہت ہیں ۔ غالب فہم آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
بولی "ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں " اسے اردو نثر پر بھی اتنی ہی گرفت تھی جتنی نظم پر۔ یوسفی کے خاکم بدہن اور چراغ تلے جھانکی تھی۔۔ کرنل محمد خان کے ساتھ بجنگ آمد تھی، راجہ گدھ پسندیدہ تھا۔ مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں دیس دیس گھومنے کا دعویٰ تھا۔
باتوں میں یوں محو ہوئے کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔
گھنٹی نے آٹھ بجائے تو میری انکھیں نیند سے سرخ ہوگئیں۔
کہا " آپ تو تھکن اتار کر جاگی ہیں لیکن میری انکھیں نیند سے بوجھل ہیں" بولی " جائیں سو جائیں"
اچھا ایک آخری بات " ہماری کیمیسٹری آپس میں ملتی ہے۔ کیوں نہ اس پہلی ملاقات کو دوستی میں بدل دیں "
"کیا مطلب ہے آپ کا۔ " اس نے پوچھا
"میرا مطلب ہے کہ دوستی کا یہ تعلق جو چند لحظوں میں بنا ہے کیوں نہ اس کو مستقل رابطے میں بدل دیں "
کہنے لگی "دوستی کے معاملے میں بہت جلد باز ہو۔ چند لفظوں پر دھوکہ کھا گئے ہو۔ "
"اگر ہوسکے تو کبھی اس نمبر کا استعمال کر لیجئے "
اگلے پیغام میں میرے موبائل نمبر بھیجنے سے پہلے ہی لائن ٹوں ٹوں کرکے ڈراپ ہوگئی۔
آج پانچ سال بعد بھی جب میں کسی چیٹنگ ایپ کو دیکھتا ہوں تو میرے کانوں میں وہی ٹوں ٹوں سنائی دیتی ہے۔

محمد الیاس خان

۔۔۔