Translate   3 years ago

#وہاب_جسکانی_کی_قلم_سے

پکارا نام جب تونے
وہیں چھا گئی خاموشی
قدم وہیں تھم گئے
رکا پلٹا میں تیری جانب
بھر کر نظروں میں چہرہ میرا مجھ سے مخاطب یوں ہوئی
مجھے معلوم ہے مجھ سے ملاقات اب نہیں ہوگی
پکڑ کر ہاتھ اسکا میرے لبوں سے یہ آواز آئ
یاد اس وقت آؤ گی جب بھولنے کی خطا ہوگی
میں بھولونگا تو میری دھڑکن میرا ساتھ نہیں دیگی
وہیں رک جائےگی مجھکو وہیں خیر باد کہہ دے گی
میں بھی لا علم تھا کہ دل جڑے دنیا نہیں بنتے
سماجی اور معاشرتی رسمیں کاٹ دیتی ہیں
وہ شہنشاہوں کے تخت پہ یوں راج کرتی تھی
بیٹھی گدی پہ ہوتی ہزاروں محافظ رکھتی تھی
وہ میری جل پری سادگی ہی اسکو بھاتی تھی
سادگی میں اسکی اس پہ میری نظریں ہی ٹکییں رہتیں
وہ جب نازل ہوئی میرے لئے میری بستی میں
پکڑ کر ہاتھ اسکا دل سے میرے ساتھ لگا دیا
کہا میں نے میری جاں میری رضا تیری محبّت ہے
پلٹ کر مجھ کو تیری رضا میرے یار ہوجائے
تو شہنشاہ تیری گدی کی توفیق نہیں میری
مجھے ہنس کر کہا تیری پھٹ پھٹی رضا میری
وہ میری جلپری سادگی ہی اسکو بھاتی تھی
مجھ پہ سادگی میں اسکی اس پہ میری نظریں ہی ٹکیں رہتیں
یوں اڑتے ساتھ باتیں کرتے قہقہے ہنستے ہواؤں میں
گویا زندہ ہم دو ہی اس دنیا میں باقی ہوں
وہ دنیا میری میں اسکی ہی دنیا بن کے رہتا تھا
ارد گرد رنگوں کی وہاں برسات ہوتی تھی
میں نے اس ہاتھ کو تھاما جو سدا میرے لئے تھا
باندھ ہاتھ پر دھاگہ اسے اپنا بنا لیا
وہ ملنے آئی جب مجھ سے ماں کو دیکھ کے تھم گئی
ماں کو پیار کیا اور ماں کے ساتھ لپٹ گئی
میرا بیٹا میرے گھر میں بہو میں بیٹی لایا ہے
تیرے بیٹے نے ماں مجھ کو میری ماں سے ملایا ہے
اب تو روز آنا روز ملنا اور ملانا تھا
گھر کے فرد کو اب روز مجھ سے ملنے آنا تھا
دی بابا نے دعائیں ہزاروں ایک ہونے کی
بہو کو بیٹی مانا اب منزلیں بس ایک ہونی تھیںں
اب وہ وقت تھا کہ مجھ کو منزلوں کو طے کرنا تھا
خوابوں خواہشوں کے پورے اپنے عزم کرنا تھا
کہا ماں نے کہ منزل تک اپنی منزل کو بھی لیجا
میری خواہش ہے یہی خواہشیں میری مجھے دے جا
ماں نکلی ہاتھ لینے بہو کا شاہی گھرانے سے
وہ جب لوٹی تو آنکھوں میں سرخی طاری تھی
ہم قابل نہیں ان کے نہ ہم برابر ہیں
اسکے بھائیوں نے توہین کی مجھ کو رلایا ہے
کہا بابا نے کردو اور کہیں سنگ میرے بیٹے کا
میں راہ پہ کھڑا کہہ دیا میں تنہا ہی نکلونگا
میں نکلا چھوڑ منزل منزلوں کی تلاش میں
منزلیں بے رنگ تھیں حاصل بھی لا حاصل تھیں
میں پا کر منزلیں برسوں بعد لوٹا گھر
خوشی تھی ماں کی نگاہوں میں وہ روئی مجھ سے لپٹ کر
کہیں پھٹ پھٹی کو دیکھتا تو میں جھلس سا جاتا
وقت تھما نہیں رکا نہیں اڑتا ہی رہا تھا
میرے بابا نے اب مجھ کو خواہشوں کے بندھن میں باندھا
کرکے شادی میرے کیا مجھ کو خوشی دینے کا ارادہ
میں ہر پل سوچتا کہ بھول چکی ہوگی مجھکو
پیار کے بندھن سے جڑ کر ننھے منوں سے کھیلتی ہوگی
گزر وں جب بھی اس راہ سے تو وہ منزل یاد آتی ہے
میرے سینے سے لپٹی میری محبّت یاد آتی ہے
میرے گھر میری ننھی سی رحمت کی خوشی آئی
میرے بالوں میں بھی ہلکی سفیدی سی چھائی
جہاں مجھ کو پکارا تھا وہاں سے گزر ہوا میرا
بے چینی سی لاحق تھی آنسوؤں کی نظر ہوا چہرہ
نظر پڑی اک کلی پردے میں جس کو میری تلاش تھی
وہ تک رہی تھی تک رہی تھی تک ہی رہی تھی
جسے ہرپل یاد رکھتا تھا اسے تھی منزل کی تلاش
میں مل کہ منزل بھی اسکی منزل نہ رہا تھا
کہا بچوں سے کہنا مجھ کو پھپھو نہ پکاریں
میں مسکرایا بھیگی آنکھیں لپٹ کر رویا اس سے
پکڑ کر ہاتھ ہم دونوں رواں اس ہی راہ پر
جہاں سے راہیں ہماری اک ہی منزل کو جاتی تھیں
کہا اس نے بٹھاؤ ساتھ اپنی پھٹ پھٹی پر
گزارے برسوں انتظار میں اس ہی منزل کے
ہم لوٹے ان دنوں جب ہم چپکے سے ملتے تھے
وہاب اختتام ہوئی زندگی اس منزل کے ساتھ ہی

وہاب جسکانی
#وہاب_جسکانی_کی_قلم_سے

image