Translate   4 years ago

زمیں کا حق

انوار اب جوان اور شادی شدہ ہو چکا ہے ،میں اور فرحت بڑ ھاپا بسر کر رہے ہیں۔کل ہم دونوں لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ایک ادھیڑ عمر عورت گیٹ عبور کر کے ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئی۔فرحت اسے یوں قریب بیٹھتا دیکھ کر بوکھلاگئی۔کہنے لگی بی بی کہاں گھسی چلی آرہی ہو مدعا کیا ہے وہاں کھڑی ہو کر بات سمجھاؤ نا۔اور وہ جھریوں بھرے چہرے والی،غموں کی گٹھری کا بوجھ اٹھائے ایسے کھڑی ہوئی جیسے یہ بوجھ اب سہارا نہ جاتا ہو۔ بولی بی بی جی ، صاحب آپ لوگوں نےپہچانا نہیں، مجھے میں انوار بچے کی دائی ہوں ۔سنا میں نے اس کی شادی ہو گئی ۔پھر مبارکیں اور دعائیں دینے لگی ایسے احسانوں کا شکریہ ادا کرنے لگی جو ہم نے اس نے اس پر کبھی نہ کیے تھے۔بولی''سائیں ساری حیاتی میں اک ہی اچھاکام کیا ہے،انوار بچے کو دودھ پلانے والا، جو لگتا ہے شاید پار لگا چھوڑے باقی تو ٹکریں ہی تھیں رولے ہی تھے ،،،بی بی جی، آپ ہمارے آقا ہیں آپ لوگوں سےکچھ مانگناہے جی انکار نہ کرنا ،،آپ لوگ مجھے پہچان تو گئے ہیں نا سائیں جی بی بی جی۔اس کی نظروں میں التجا تھی اور برسوں کی تھکن۔۔۔۔۔
یہ ساری روداد سن کر فرحت چلائی تھی،شاید وہ پہلے ہی بول پڑتی لیکن سوال کرنے والی نے فرحت کو بولنے کا موقع نہ دیا تھا جیسے اگر رکی تو مدعا بھول جائے گی یا الفاظ ساتھ چھوڑ جائیں گے پھرکبھی بول نہ سکے گی۔۔ فرحت نے کہاتھا : ہنہ ،انوار بچہ۔۔۔،،احسان نہیں کیا تو نے اس پر، تنخواہ کھاتی رہی ہے،میرے انوار کے ساتھ ساتھ اپنا بچہ بھی پالتی رہی ہے ،،انوار کو اگر دودھ پلایا تھا نا بی بی تواجرت پر پلاتی تھی،، آج پھر آ گئی برسوں بعد بیماریوں کی پوٹ،، جامائی باہر بیٹھ،دیکھتے ہیں ،کرتے ہیں کچھ۔میں خاموش تھا ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔۔لیکن میرا ذہن ماضی میں جا چکا تھا وہ جو سوال کر رہی تھی اسکے ماضی کو کھوج رہا تھا۔۔اسکا ماضی ،ہم سب کا ماضی،میرا ،فرحت کا،انوار کا،اور میرے جیسے ''انسانوں'' کا ماضی۔۔۔۔۔
انوار میرا بیٹا،میرا وارث،دس برس بعد پیدا ہواتھا اماں نے گاؤں سے ایک غریب جوان لڑکی بھیجی تھی انوار کو دودھ پلانے کے لیے،ضرورت مند تھی ایک بیٹا تھا تین چار ماہ کا۔فرحت کو نوکروں سے کام کرانا خوب آتا تھا،، سو وہ سارا دن انوار کو لیے رہتی،انوار اس کی گود میں پر سکون سویا رہتا لیکن اس کا اپنا بیٹا بھوک سے بلبلاتا ،سارا سارا دن ننگے فرش پر اور کبھی اپنی میلے بوسیدہ بستر پر پڑا روتا رہتا، کبھی روٹی کا کوئی ٹکڑا کوئی ملازمہ اسے پکڑا دیتی تو اسے چبانے لگتا۔ایک دفعہ میں اس کے بیٹے کے رونے کی آواز سن سن کر بیزار ہو گیا تو کہا ''اس کا بیٹا سارا دن بھوکا روتا رہتا ہے،اسے تھوڑا زیادہ دودھ دے دیا کرو۔'' فرحت میرے بچے کی ماں تھی میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس بات پر وہ بگڑ گئی تھی سو میں خاموش ہو گیا۔لیکن مسلسل نظر انداز ہونے اور خالی پیٹ رہنے کی وجہ سے اس کا بچہ بیمار رہنے لگا تھا ہر وقت بلکتا رہتا بلکہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اب اس سے رویا بھی نہ جاتا تھا سسکتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔
انوار بڑا ہوچکا تھا اب نہ فرحت کو نہ ہی انوارکو اس کی ضرورت تھی ۔وہ گاؤں واپس جا رہی تھی تو میں نے اسے بچے کے علاج کا کہہ کرسو روپے کا نوٹ دیا ۔دعائیں دیتی تھکتی نہ تھی ۔پھرکام میں اتنا مصروف ہو گیا کہ وہ ذہن سے محو گئی۔۔۔۔
کافی عرصے بعد گاؤں جانا ہوا تواس کا خیال آیا گاؤں والوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ بھاگ گئی اپنے شوہر کا بھی خیال نہ کیا،برادری کا بھی منہ کالا کیا۔اس وقت میں نے عجیب بے بسی محسوس کی اک زہر گھل گیا میرے اندر ''میرے انوار کے جسم نے جس دودھ سے طاقت پکڑی ہے وہ ایک آوارہ عورت کا تھا''بد کردار،،، میرے ذہن نے تب یہی سوچا تھا اس کو اسی طرح بیان کرنا چاہتا تھا میں۔کچھ عرصےبعد پھر وہ میرے ذہن سے نکل گئی۔۔۔۔۔
میری تبدیلی اندرون سندھ کے ایک علاقے میں ہو گئی خداد ادایک دن مجھے ایک میلے میں لے گیا رنگا رنگ میلوں میں ایک جگہ منڈی لگی تھی،انسانیت نیلام ہوتی تھی اور خریدار بھی ''انسان ''ہی کہلواتے تھے۔وہاں مجھے وہ نظر آئی،اب وہ ویسی جوان نہیں تھی وقت اپنے آثار چھوڑ رہا تھا ،لیکن پھر بھی میں اسے پہچان گیا ،وہ بھی جان گئی،پاس سے گزرتے ہوئے بولی،سلام صاحب۔۔۔آپ نے پہچانا مجھے۔۔اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا اسے گھسیٹ لیا گیا۔۔اس دن میں بہت افسردہ تھا میں نے خداداد سے کہا کہ یہ جنس تو نہیں پھر بکاؤ کیوں،کہنے لگا سب بکتا ہے یہاں بس خریدار کو جانچ ہونی چاہیے،اور مجھے لگا وہ ابھی کھڑا کھڑا مجھے بھی نیلام کر دے گا۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی تبدیلی پرانے شہر کرا لی ۔جانے سے پہلے ایک دن میں خداداد سے ملنے گیا۔وہ کہنے لگا اس دن تمہارے چہرے پر بڑا کرب تھا ،اس عورت کو میں نے خرید لیا یہ سوچ کر کہ کم از کم کھانا تو پیٹ بھر کھائے گی اب زنانے میں کام کرتی ہے۔میں بڑا مشکور ہوا۔جب واپس جا رہا تھا تو وہ مجھے سڑک کنارے نظر آئی میں جیپ روک کر اتر ا ،مجھے دیکھتے ہی رونے لگی ،میں نے کہا ''تمہارا بیٹا تو بڑا ہو گیا ہو گا اب'' کہنے لگی سائیں آپ کو پتہ ہی نہیں چلا میرا بیٹا تو مر گیا تھا،شہر سے آنے کے کچھ دن بعد ہی وہ تو جی چلا گیا تھا۔آپ نے تو دیئے تھے سو روپے پر جی موت کے آگے کون کھڑا ہو تا ہے'' میرے اندرکچوکا لگا تھا ''بد کردار''لیکن اپنی انسانیت کو مزید تسکین دینے کو میں پوچھا،،' اور تمہارا شوہر'،،میری آواز ابھی بھی لرزی نہیں تھی۔۔اس کے بعد میرا کوئی بچہ پیدا نہ ہوا۔وہ مار پیٹ کرنے لگا،کہتا تو بنجر ہے تیرے ساتھ کا مجھے کیا فائدہ ایک روز ادھ موا کر کے گھر سے نکال دیا صاحب،پھر سنا تھا دوسری عورت سے شادی کی ہے،بچے ہیں اسکے اب خوش ہو گا شاید۔
''وہ بھاگ گئی ہے'' گاؤں والوں کی تہمت جس پر میں نے آنکھیں بند کیےاعتبار کیا تھا میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔
مزید بولی 'تب سے آج تک میں بکتی رہی ہوں سائیں'۔ گاؤں جانا چاہتی ہو تو میرے ساتھ چلو میں تمہیں تمہارے گھر پہنچاؤں گا۔تمہاری ماں کے گھر، میں نے اسے کچھ پیسے تھماتے ہوئے کہا تھا۔نہ سائیں نہ میں اب وہاں جا کر کیا کروں گی جی میری ماں بہنیں تو مجھے رو پیٹ چکی ہوں گی گاؤں والے بھی برداشت نہیں کریں گے، اب جیسی ہوں جہاں ہوں ٹھیک ہوں،آپ انوار بچے کو بہت پیار کرنا بی بی جی کو میرا سلام پہنچا دینا۔میں گاڑی میں بیٹھ گیا جاتے ہوئے بیک ویو سے اسے دیکھا وہ ویسے ہی کھڑی تھی ویران آنکھوں کے ساتھ۔ یہ واقعہ بھی قصہء پارینہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔
کل وہ پھر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی،ماضی کے سبھی واقعات جن میں وہ آتی تھی میرے سامنے پھیل گئے،اس وقت بنتا تو یہ تھا کہ میں سوچتا کہ کس بات پر اپنی اور اپنے ہم جنسوں کی'' انسانیت'' کا ماتم کروں لیکن نہیں آخر کو 'انسان' ہوں سوچنے لگا کہ انسان زندگی بھی کیسے فریب دکھاتی ہے کیسی کیسی اذیتیں جھیلنی پڑتی ہیں بشر کو۔میری سوچیں ایسی ہی ہوتی ہیں جب سوچتا ہوں تو خیال ہی خیا ل میں انسانیت کی معراج سوچتا ہوں اور جب نہیں سوچتا تو دماغ سے ہر بات محو ہو جاتی ہے،زندگی کے جھمیلوں میں پڑا رہتا ہوں۔۔۔۔۔
یہ بات اور سوچ بھی میرے ذہن سے محو ہو جاتی اگر میں کل شام کو ہی سرونٹ کوارٹر میں مونج کی چارپائی پر پڑا اس کا مردہ وجود نہ دیکھ لیتا ۔۔۔
بلکہ یہ بات بھی محو ہو ہی جانی تھی کیونکہ موت واقعہ تو ہے لیکن اتنا بھی عظیم نہیں آخر سبھی کو اس سے گزرنا ہے۔۔۔۔
اب یہ بات اس لیے محو نہیں ہو گی کیونکہ اب اس کے الفاظ میرے ذہن سے چپک گیے ہیں۔۔۔
کل جب وہ آئی تھی تب جانتے ہیں اس نے کیا مانگا تھا،اس نے انوار کو دودھ پلانے کے عوض دوگز زمین کا حق مانگا تھا۔اور فرحت نے کہا تھا''مائی کوئی ایسے نہیں پڑا رہتا،زمین مل ہی جاتی ہے سب کو، باہر بیٹھو جا کر''۔
میں خاموش رہا تھا اور کل شام کو ہی میں نےسرونٹ کوارٹر میں مونج کی چارپائی پر پڑا اس کا مردہ وجود نہ دیکھا ۔۔۔۔اور اس وجود نے مجھے اس کا حق یاد دلایا تھا لیکن میں خاموش رہا تھا کیونکہ فرحت میرے بچے کی ماں ہے، میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا ۔۔

(سائرہ ہاشمی کے افسانے 'جذبے کی قیمت'سے ماخوذ)
تحریر:ابیحہ مقبول

image