تنہا ھوئے تو خود سے ملاقات ھوگئی
جس کا گمان تک نہ تھا وہ بات ھو گئی

اتنی طویل رات تھی کل شب کہ صبح دم
بس ایک پَل کو دن ھوا پھر رات ھو گئی

اب غیر کیا کہ ھم سے گریزاں ھے اپنا خون
سنگین اتنی صورت حالات ھو گئی

کل بزم آشنا میں سبھی ایک سے لگے
دشمن ؟ سجن ؟ انا کو مری مات ھو گئی

یادیں رفاقتوں کی رلانے پہ تلُ گئیں
دل اس قدر بھر آیا کہ برسات ھو گئی

چھوٹی سی اک وبا نے بڑا کام کر دیا
ظاہر زمیں پہ بندے کی اوقات ھو گئی

احمد ھمارے دین میں مایوسی کفر ھے
سو ہاتھ اٹھے دعا کو مناجات ھو گئی