Translate   3 years ago

خدا کو ہی گم کر بیٹھا ہے ۔۔

ادب میری محبت ہے اور ادب سے گہرا دلی تعلق ہے ۔ لیکن بھاڑ میں جائے ایسا ادب جو خدا کی پہچان بھلا ڈالے ۔۔
امر جلیل سندھ کا مشہور افسانہ نگار , ڈرامہ نویس اور اس دور کا منصور ہلاج یا پھر موسیٰ کے دور کا کوئی مجذوب ہے کہ اپنی دماغی بھول بھلیوں میں خدا کو ہی گم کر بیٹھا ہے رب سے گستاخانہ مکالمہ فرما رہا ہے ۔ عوام کو قرینہ سکھاتے سکھاتے رب کو بھی لاجواب کر رہا ہے ۔ اور سامنے بیٹھا جاہلوں کا ہجوم نعوذ باللہ رب کو لاجواب کرنے پہ دانت چمکا رہا ہے ۔ اس ہجوم میں کتنے ایسے ہیں جو عبد اور معبود کے درمیان تعلق کی سمجھ رکھتے ہیں ۔ رب ماں نہیں ہے تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ فضیلت رکھنے کی مثال کیسے دیتا ہے ۔ اس مجمعے میں ایک بھی ایسا بندہ نہیں تھا جو اس گستاخ کا منہ نوچ لیتا ۔
مجذوب جاہل تھا ایک حرف نہیں جانتا تھا تو رب کی کنگھی پٹی کرتا اور جوئیں نکالتا تھا ۔ آپ اتنے بڑے ادبی مقام پہ فائز ہو کے دنیا جہان میں اپنی علمیت کی دھاک بٹھا کے پھر بیٹھ کے رب کی جوئیں نکالیں گے ۔ ؟
جو جتنا جاہل ہے اس کا اتنا آسان معاملہ ہے جو جتنا عامل ہے اس کا اتنا کڑا حساب ہے ۔ منصور حلاج بھی رب کے قرب کے دعوے میں ربوبیت کے دعوے تک آگیا تھا ۔۔ خدارا اتنے عالم نہ بنئے کہ سارا جہان جاہل رہ جانے میں عافیت جانے ۔
افسانے کے آغاز میں محسوس ہوا مصنف بڑا بھولا ہے جی وہی بھولا جسے پنجاب میں سائیں کہا جاتا ہے اور اپنے معصوم انداز سے رب سے ہمکلام ہے لیکن اپنی اسی معصومیت میں عوام کے ذہن میں رب کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ خدا کو لاجواب کرنے کے معصوم دعوے نے ہلا دیا ۔
مجھے ان ادب نگاروں پہ حیرت ہو رہی ہے جو اسے شہہ دے رہے ہیں ۔ اور اسکے افسانے کو شہ پارہ قرار دے رہے ہیں کہ عوام کو اس افسانے کی گرد تک پہنچنے میں بیس صدیاں درکار ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ خواتین و حضرات بیس صدیاں پہلے دنیا میں کیا کر رہے ہیں ۔ رب اتنا مجبور ہے اور تم اسے جیب میں لئے پھرتے ہو تو کاہے کو اس کے بنائے نظام پہ پیدا ہوگئے کسی درخت پہ لٹک کے اگتے یا زمین کی تہہ میں اپنی مرضی سے نمو پاتے ہوئے پیدا ہوتے اور اپنے جیسے بے ادبوں کے درمیان مزے سے رہتے ۔۔۔ خدا ان سب کو نیست و نابود کرے ۔