سماج کا ہنس راج
....
چند روز قبل بائیکیا سے کھانا منگوایا تو رائیڈر کا میسج موصول ہوا کہ لوکیشن بھیجیں. جب رائیڈر کی وٹس ایپ پر پروفائل پِکچر دیکھی تو دیکھا وہ نوجوان کالج یونیفارم میں تھا. ٹائی بڑے قرینے سے شرٹ کو خوبصورت بنا رہی تھی. چہرے پر اُمید اور یقین کے قمقمے دمک رہے تھے, جیسے کہہ رہے ہوں بس تعلیم مکمل کرتے ہی سنہرا مستقبل آ تھامے گا. یہ تصویر اُس نے اپنے والد کے ساتھ کھچوائی ہو گی کیونکہ ساتھ جو صاحب اپنے ہونہار بیٹے کے ساتھ کھڑے تھے, بظاہر ہشاش نظر آرہے تھے.

آج پھر شام کو بائیکیا جب ہمارے کلائینٹ سے دستاویزات کا لفافہ لے کر آیا تو آنے سے پہلے اُس نے بھی لوکیشن بھیجنے کو کہا. جب اُس کی پروفائل پِکچر پر نگاہ پڑی تو دل دکھی ہو گیا. وہ کوئی تیس پینتیس سال کا شخص تھا, جس کے چہرے سے جوانی اترنا چاہ رہی تھی. بڑھی شیوّ میں کہیں اداسی پوشیدہ تھی. جب وہ دروازے پر آیا اور ہم نے دروازے کو کھولا, تو صاف لگ رہا تھا وہ کسی پڑھے لکھے گھر سے تھا. کاغذات وصول کرتے ہوئے ہم نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی کیا تعلیم ہے. اُس نے بتایا وہ ایم بی اے ہے. یہ سن کر ہمارا دل رنجیدہ ہو گیا.

ہم نے اُسے حوصلہ دیا اور کہا کہ یہ سب زندگی کا حصہ ہے. یہ منزل کی طرف چلنے کا ایک عمل ہے. مگر ہم جانتے تھے کہ ہم صرف اُسے حوصلہ دے رہے ہیں. ورنہ یہاں سرکاری نوکری تو تعلقات کے بل پر ہی ملتی ہے. بڑے بڑے اشتہارات تو صرف دکھاوے کے ہوتے ہیں. پھر ٹیسٹ اور انٹرویو خانہ پُری. نوکری تو اُنہیں ہی ملتی ہے جنہیں دینی مقصود ہوتی ہے.

ہمیں یاد آیا یہی کو ڈیڑھ ماہ قبل جب ہم پائوں کی چھوٹی انگلی کے فریکچر کے سلسلے میں ایک ہسپتال گئے اور وہاں آرتھوپیڈک ڈاکٹڑ صاحب کو وِزٹ کیا, تو باتوں باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ تیرہ چودہ سال سے پریکٹس کر رہے ہیں, مگر نہ اپنا کلینک بنا سکے اور نہ۔ہی گاڑی لے سکے. بتانے لگے کوئی دو سال قبل وہ لاہور میں ایک ادارے کے ہسپتال میں کام کرتے تھے. ایک روز ہسپتال سے فارغ ہو کر جب وہ بائیکیا کروا کر اپنی رہائش گاہ کو جا رہے تھے, تو بائیکیا کے رائیڈر نے بتایا کہ وہ ایم بی بی ایس ہے. ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یہ سن کر وہ دھک سے رھ گئے.

ڈاکٹر صاحب جن کی مادری زبان سندھی تھی, کہنے لگے پورے ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے. کئی ہزار ڈاکٹر باہر جا چکے ہیں, کئی ہزار جانے کی تیاری میں ہیں, اور وہ خود بہت جلد اپنی جمع پونجی دائو پر لگا کر انگلینڈ چلے جائیں گے.

اُنہوں نے ایک عجیب بات کہی. اُنہوں نے کہا لاہور عجیب شہر ہے. وہاں کے لوگ اُجلی سڑکوں, پُلوں اور عالیشان عمارتوں سے متاثر نہیں ہوتے کہ کس نے تعمیر کروائی ہیں یا کس کے دور میں تعمیر ہوئیں, وہ حقوق اور حق کی بات کرتے ہیں. اُنہوں نے فضا میں موبائل لہرایا اور کہا وقت بدل.رہا ہے.

ہم سمجھتے ہیں پاکستان کا معاشرہ ایک دوراہے پر کھڑا ہے. ایک ایسا دوراہا جہاں وقت عوام کو وہ کچھ کرنے پر مجبور کر رہا ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتے. کچھ ایسے بھی ہوں گے, جو موبائل چھیننا نہیں چاہتے, مگر بے روزگاری سے مجبور ہیں, کچھ بینک لوٹنا نہیں چاہتے, مگر افلاس مجبور کر دیتا ہے, کچھ خواتین نوکری کرنا نہیں چاہتیں مگر گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے...کئی ٹرانسجینڈر سلیقے کا کام کرنا چاہتے ہوں گے, مگر سڑک پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں. اِسی طرح کچھ نوجوان جو انجینئیر ہیں, ڈاکٹر ہیں یا ایم بی اے یا بی بی اے, جاب نہ ملنے پر بائیکیا کے رائیڈر بن گئے ہیں.... کچھ نوجوان خواتین نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ کرتی ہیں, نہیں کرنا چاہتی ہوں گی.

اب مسلہ کوٹھا نہیں رہا, اب مسلہ آفس ہو گیا ہے, اب معاملہ ایم بی بی ایس پاس کرنے کے بعد ہائوس جاب یا ہائوس جاب کرنے کے بعد نوکری نہ ملنا نہیں رہا بلکہ بائیک نہ ہونا ہو گیا ہے کہ وہ بائیکیا رائیڈر بھی نہیں بن سکتا.

اب نصیحت کا لیکچر کام نہیں کر سکتا, اب معاشی بدحالی کا پہیہ سب کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ چلائے گا, بلکہ بھگائے گا. ستم یہ ہے کہ سماج اپنی ماہیت میں ابھی تک پسماندہ ہے جو عورت کو گھر میں رکھنا چاہتا ہے, اور معیشت کا سفاک پہیہ عورت کو گھر سے باہر لائے بغیر, گھر میں لقمہ آنے نہیں دیتا.

کام کوئی بھی برا نہیں, برا تو سماج ہے, جس پر بظاہر فرسودہ راج ہنس کا راج ہے. پاکستان ابھی یورپ نہیں بنا جہاں کوئی بھی کام برا نہیں سمجھا جاتا. یہاں سڑک پر صفائی کا کام کرنے والا اپنی گاڑی سے اتر کر صفائی کا کام نہیں کرتا, یہاں پہ صفائی والا ایک مہنگے ہوٹل میں ایک رائیس کی ٹیبل سے نزدیکی ٹیبل پر بیٹھا ڈنر سے لطف اندور نہیں ہو رہا ہوتا. یہاں ایم بی اے پاس یا ایم بی بی ایس پاس رائیڈر ہیلمٹ پہنے ناجانے کتنی مرتبہ اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیئے بِنا بائیک چلائے جاتا ہے, چلائے جاتا ہے....
...
عمّاریاسر
20 اگست 2023

image