Translate   6 months ago

اسرائیل, یوکرین اور بھارت .... مغرب کے وفادار سپاہی
.....
امریکہ اس قانون پر عمل پیرا ہونے جا رہا ہے جو انسانی حقوق اور خود امریکی بِل آف رائیٹس کے خلاف ہے کہ فلسطینیوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی جائے گی. اِدھر فرانس نے اعلان کیا ہے کہ جو بھی اسرائیلی ریاست کے خلاف فرانس میں عمل پیرا ہوگا, اُسے دیگر سزائوں سمیت دو سال تک قید و بند کی سزا دی جائے گی.

جو لوگ باشعور ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں مغرب کا جمہوریت, انسانی حقوق اور آزادیء رائے سے دور دور کا واسطہ نہیں. شعور کی زرا سی سوچ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ہٹلر اِس لیئے آمر تھا کہ وہ مغربی استعماریت کے خلاف جرمن استعماریت کی بقا چاہتا تھا, ورنہ دنیا سوال تو کرتی ہے کہ اگر ہٹلر آمر و جابر تھا تو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر انسانیت کا جنازہ کس نے نکالا. اسٹالن اس لیئے مغرب کی آنکھ میں آج بھی رِِڑکتا ہے کہ اُس نے سویت یونین میں سوشلزم کے خلاف اُن عناصر کو طاقت سے روکا تھا جو مغرب کی ایما پر روس میں خلفشار چاہتے تھے.

آج روس میں کیمیونزم تو ختم ہو چکا ہے کہ جس میں مغرب کا بہت بڑا ہاتھ ہے, مگر ابھی تک مغرب کی پیاس نہیں بجھی. یوکرین کی صورت میں مشرقی یورپ میں ایک نیا اسرائیل جنم لے چکا ہے. مغرب کی تمنا ہے کہ وہ روس سمیت سارے مشرقی یورپ کو, مذھب, عقیدے اور لسانیت کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردے تاکہ اس وسیع علاقے میں کوئی بڑی طاقت نہ رہے.

آج مغرب پاکستان پر شدید دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ بھارت کو ایک علاقائی طاقت مان کر اُسے چین کو زیر کرنے میں مدد فراہم کرے. یہ دبائو اثر کرتا دکھائی دے رہا ہے. اگر پاکستان اس دبائو کو تسلیم کر بھی لے گا تو پاکستان میں زیادہ شدت سے دھشت گردی جنم لے گی. پاکستان خود اپنے وجود ہی میں جنگ میں دھکیل دیا جائے گا. مغرب یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ چین کو بھی چھوٹے چھوٹے صوبوں میں مذھب, زبان اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کر سکے.

مغرب ایسا کیوں چاہتا ہے؟ صرف اس لیئے کہ مغرب کی ایلِٹ کلاس پوری دنیا کے معدنیات, اور قدرتی وسائل پر زیادہ شدت سے قبضہ جمانا چاہتی ہے. ورنہ اس ساری تگ و دو کی کوئی انسانی وجہ تو نظر نہیں آتی.

مغرب کو اسرائیل, بھارت اور یوکرین اس لیے عزیز ہیں کہ یہ تینوں ملک اُس (مغرب) کی توسیع پسندی اور استعماریت کے لیئے مضبوط اور وفادار گماشتوں کا کردار ادا کر رہے ہیں.
.....
عمّاریاسر
5 نومبر 2023

image
Translate   8 months ago

سماج کا ہنس راج
....
چند روز قبل بائیکیا سے کھانا منگوایا تو رائیڈر کا میسج موصول ہوا کہ لوکیشن بھیجیں. جب رائیڈر کی وٹس ایپ پر پروفائل پِکچر دیکھی تو دیکھا وہ نوجوان کالج یونیفارم میں تھا. ٹائی بڑے قرینے سے شرٹ کو خوبصورت بنا رہی تھی. چہرے پر اُمید اور یقین کے قمقمے دمک رہے تھے, جیسے کہہ رہے ہوں بس تعلیم مکمل کرتے ہی سنہرا مستقبل آ تھامے گا. یہ تصویر اُس نے اپنے والد کے ساتھ کھچوائی ہو گی کیونکہ ساتھ جو صاحب اپنے ہونہار بیٹے کے ساتھ کھڑے تھے, بظاہر ہشاش نظر آرہے تھے.

آج پھر شام کو بائیکیا جب ہمارے کلائینٹ سے دستاویزات کا لفافہ لے کر آیا تو آنے سے پہلے اُس نے بھی لوکیشن بھیجنے کو کہا. جب اُس کی پروفائل پِکچر پر نگاہ پڑی تو دل دکھی ہو گیا. وہ کوئی تیس پینتیس سال کا شخص تھا, جس کے چہرے سے جوانی اترنا چاہ رہی تھی. بڑھی شیوّ میں کہیں اداسی پوشیدہ تھی. جب وہ دروازے پر آیا اور ہم نے دروازے کو کھولا, تو صاف لگ رہا تھا وہ کسی پڑھے لکھے گھر سے تھا. کاغذات وصول کرتے ہوئے ہم نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی کیا تعلیم ہے. اُس نے بتایا وہ ایم بی اے ہے. یہ سن کر ہمارا دل رنجیدہ ہو گیا.

ہم نے اُسے حوصلہ دیا اور کہا کہ یہ سب زندگی کا حصہ ہے. یہ منزل کی طرف چلنے کا ایک عمل ہے. مگر ہم جانتے تھے کہ ہم صرف اُسے حوصلہ دے رہے ہیں. ورنہ یہاں سرکاری نوکری تو تعلقات کے بل پر ہی ملتی ہے. بڑے بڑے اشتہارات تو صرف دکھاوے کے ہوتے ہیں. پھر ٹیسٹ اور انٹرویو خانہ پُری. نوکری تو اُنہیں ہی ملتی ہے جنہیں دینی مقصود ہوتی ہے.

ہمیں یاد آیا یہی کو ڈیڑھ ماہ قبل جب ہم پائوں کی چھوٹی انگلی کے فریکچر کے سلسلے میں ایک ہسپتال گئے اور وہاں آرتھوپیڈک ڈاکٹڑ صاحب کو وِزٹ کیا, تو باتوں باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ تیرہ چودہ سال سے پریکٹس کر رہے ہیں, مگر نہ اپنا کلینک بنا سکے اور نہ۔ہی گاڑی لے سکے. بتانے لگے کوئی دو سال قبل وہ لاہور میں ایک ادارے کے ہسپتال میں کام کرتے تھے. ایک روز ہسپتال سے فارغ ہو کر جب وہ بائیکیا کروا کر اپنی رہائش گاہ کو جا رہے تھے, تو بائیکیا کے رائیڈر نے بتایا کہ وہ ایم بی بی ایس ہے. ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یہ سن کر وہ دھک سے رھ گئے.

ڈاکٹر صاحب جن کی مادری زبان سندھی تھی, کہنے لگے پورے ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے. کئی ہزار ڈاکٹر باہر جا چکے ہیں, کئی ہزار جانے کی تیاری میں ہیں, اور وہ خود بہت جلد اپنی جمع پونجی دائو پر لگا کر انگلینڈ چلے جائیں گے.

اُنہوں نے ایک عجیب بات کہی. اُنہوں نے کہا لاہور عجیب شہر ہے. وہاں کے لوگ اُجلی سڑکوں, پُلوں اور عالیشان عمارتوں سے متاثر نہیں ہوتے کہ کس نے تعمیر کروائی ہیں یا کس کے دور میں تعمیر ہوئیں, وہ حقوق اور حق کی بات کرتے ہیں. اُنہوں نے فضا میں موبائل لہرایا اور کہا وقت بدل.رہا ہے.

ہم سمجھتے ہیں پاکستان کا معاشرہ ایک دوراہے پر کھڑا ہے. ایک ایسا دوراہا جہاں وقت عوام کو وہ کچھ کرنے پر مجبور کر رہا ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتے. کچھ ایسے بھی ہوں گے, جو موبائل چھیننا نہیں چاہتے, مگر بے روزگاری سے مجبور ہیں, کچھ بینک لوٹنا نہیں چاہتے, مگر افلاس مجبور کر دیتا ہے, کچھ خواتین نوکری کرنا نہیں چاہتیں مگر گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے...کئی ٹرانسجینڈر سلیقے کا کام کرنا چاہتے ہوں گے, مگر سڑک پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں. اِسی طرح کچھ نوجوان جو انجینئیر ہیں, ڈاکٹر ہیں یا ایم بی اے یا بی بی اے, جاب نہ ملنے پر بائیکیا کے رائیڈر بن گئے ہیں.... کچھ نوجوان خواتین نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ کرتی ہیں, نہیں کرنا چاہتی ہوں گی.

اب مسلہ کوٹھا نہیں رہا, اب مسلہ آفس ہو گیا ہے, اب معاملہ ایم بی بی ایس پاس کرنے کے بعد ہائوس جاب یا ہائوس جاب کرنے کے بعد نوکری نہ ملنا نہیں رہا بلکہ بائیک نہ ہونا ہو گیا ہے کہ وہ بائیکیا رائیڈر بھی نہیں بن سکتا.

اب نصیحت کا لیکچر کام نہیں کر سکتا, اب معاشی بدحالی کا پہیہ سب کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ چلائے گا, بلکہ بھگائے گا. ستم یہ ہے کہ سماج اپنی ماہیت میں ابھی تک پسماندہ ہے جو عورت کو گھر میں رکھنا چاہتا ہے, اور معیشت کا سفاک پہیہ عورت کو گھر سے باہر لائے بغیر, گھر میں لقمہ آنے نہیں دیتا.

کام کوئی بھی برا نہیں, برا تو سماج ہے, جس پر بظاہر فرسودہ راج ہنس کا راج ہے. پاکستان ابھی یورپ نہیں بنا جہاں کوئی بھی کام برا نہیں سمجھا جاتا. یہاں سڑک پر صفائی کا کام کرنے والا اپنی گاڑی سے اتر کر صفائی کا کام نہیں کرتا, یہاں پہ صفائی والا ایک مہنگے ہوٹل میں ایک رائیس کی ٹیبل سے نزدیکی ٹیبل پر بیٹھا ڈنر سے لطف اندور نہیں ہو رہا ہوتا. یہاں ایم بی اے پاس یا ایم بی بی ایس پاس رائیڈر ہیلمٹ پہنے ناجانے کتنی مرتبہ اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیئے بِنا بائیک چلائے جاتا ہے, چلائے جاتا ہے....
...
عمّاریاسر
20 اگست 2023

image

واگنار پرائیویٹ فورس ... روس کی اپنی غلطی
.....
ابھی دو ایک روز پہلے ہی واگنار پرائئویٹ پیراملٹری فورس نے ماسکو کے قریب پیش قدمی روک دی. دراصل یہ گروپ روسی واگنار پرائیویٹ ملٹری کمپنی کے تحت کام کرتا ہے, جِسے خود روس نے بنایا اور منظم کیا تھا. اِس فورس نے شام اور یوکرین سمیت روسی حکومت کے تحت امریکی عزائم کے خلاف روسی مزاحمت کو پورا کیا.

یوکرین میں جہاں روسی افواج پیش قدمی کر رہی تھیں یا برسرِ پیکار تھیں, وہاں روس سے متصل علاقے مگر یوکرین کے خطے میں ویگنار گروپ نے روس کے مقاصد کو پورا کیا.
....
یہاں ہم تھوڑا سا توقف لیتے ہیں اور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جمہوری ممالک خواہ بھارت اور پاکستان جیسے ہوں یا امریکی اور برطانیہ جیسے ہوں؛ یا نظریے پر قائم ممالک خواہ وہ اسرائیل جیسے ہوں یا سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ہوں, وہ صرف مراعات یافتہ اور طاقتور طبقات کے باہمی کٹھ جوڑ یا تضاد کا مقامی یا بین الاقوامی اشتراک سے تخلیق کردہ ڈھانچہ ہوتے ہیں.

سویت یونین کے انہدام کے بعد, ساٹھ کے عشرے کے بعد سے بتدریج جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھتا یہ ملک بلا آخر گورباچوف جیسے نامعقول اور مغرب پرست انسان کی قیادت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر صرف موجودہ روس ہو کر رھ گیا. اِس انہدام کے بعد لینن کی قیادت میں سویت یونین کے معاشرے میں بِلا تمیز رنگ, نسل, عقیدے اور علاقے یا لسانیات کے عوام کو ایک کیا گیا تھا, وہاں زاتی, گروہی اور دیگر بنیادوں پر تضادات نا صرف کھل کر ابھرے, بلکہ بہت سی جگہوں پر پرتشدد یا جنگ و جدل کا بھی موجب بنے. اِن تضادات کو امریکہ اور مغرب نے خوب ہوا دی, اور اپنے پروردہ گماشتے پیدا کیئے. یوکرین کی موجودہ قیادت ایک ایسی ہی قیادت ہے.

انہدام کے بعد روس اور دیگر ریاستوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نے پنپنا شروع کیا. روس سمیت اِن ریاستوں میں پیسے کا ارتکاز شروع ہوا, کرپشن کا آغاز ہوا. بڑی بڑی کمپنیاں مغربی دنیا کی کمپنیوں کی طرز پر بنائی گئیں, جن کے تعلقات مغربی دنیا سے جڑتے چلے گئے.

روس کی یہ وایگنار گروپ کمپنی ایک عسکری کمپنی ہے. سرمایہ دارانہ کاروبار کا بنیادی اور پہلا مقصد منافع کمانا ہے, دوسرا مقصد, ہر صورت اِس منافع میں اضافہ کرنا ہے, خواہ طریقہ جائز ہو یا ناجائز. اِس مقصد کے لیئے یہ یا ایسی بڑی کمپنیاں بین الاقوامی سرمایہ داری سے بھی کاروباری تعلقات بناتی ہیں جو فطری ہے بشرط یہ کہ قانون کے دائرے میں رہا جائے.

اب چونکہ واگنار گروپ یا کمپنی ایک عسکری فورس ہے, چناچہ اِس پر دوسری طاقتوں کی نظر بھی رہتی ہے. قوی یقین سے کہا جا سکتا ہے اِس گروپ کی عسکری قیادت میں بہت سے ایسے ایجنٹ بھی ہوں گے جو ہدایات کہیں اور سے لیتے ہوں گے.

یوِجینی پری گو زین Yevgene Prigozhin اِس پرائیویٹ ملٹری کمپنی کا ہیڈ اور مالک ہے, جس کے روسی صدر پیوٹن کے ساتھ بہت گہرے تعلقات رہے ہیں. یہ ایک بہت امیر کبیر روسی کاروباری شخصیت ہے. کسی زمانے میں اِس کو روسی صدر کا شیف بھی کہا جاتا تھا.
....
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع پر. سرمایہ دارانہ جمہوری ممالک میں طاقتور طبقہ سیاست پر بھی قابض ہوتا ہے, اور اسمبلیوں یا شوری تک پہنچتا ہے. یہ طبقہ یہاں پہنچ کر ایسی پالیسیاں بناتا ہے جن کے زریعے یہ جائز ناجائز طریقے سے اپنی گروہی کاروباری کام کو اور منافعے کو بڑھاوا دیتا ہے. ریاست کے تمام ادارے بشمول عدالتیں ان ہی طبقات کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہیں.

ان ممالک میں عسکری قیادت, سب سے زیادہ طاقتور ہونے کی بنا پر کاروبار یا منافعے میں شراکت دار بنتی ہے. روس کے ساتھ ایسا ہی ہوا. موجودہ روسی عسکری قیادت کی بڑی بڑی شخصیات نے خوب دولت بنائی. ایک رپورٹ کے مطابق, بین الاقوامی عشرت اور کاروباری لین دین کی بات چیت کے مرکز یو اے ای میں اِن روسی عسکری افسران کی بیویاں اور بچے اکثر دیکھے جا سکتے ہیں. واگنار گروپ نے بظاہر یا حقیقتا٘ روسی عسکری قیادت پر انتہائی کرپٹ ہونے کا الزام لگایا اور روس میں اپنی پیش قدمی کو اِس کرپشن کے خلاف ایک مزاحمت قرار دیا.

چونکہ موجودہ روس اپنی سابقہ ریاستوں پر, کہ جن سے تعلقات کاروباری اور جغرافیائی لحاظ سے ازحد ضرور ہیں, اپنی حاکمیت رکھنا چاہتا ہے, اور چونکہ روس آج بھی امریکہ کے آگے ایک برابری کی بنیاد پر بڑی طاقت ہے, اِس لیئے اُسے (روس) مغرب کی شدید مزاحمت کا سامنا رہتا ہے. یوکرین ایک ایسی ہی مزاحمت کا مرکز ہے, جہاں پر یوکرینی فوجیوں کی وہی حیثیت ہے جو سویت یونین کے کے خلاف مجاہدین کی تھی. پسِ پردہ یوکرین میں امریکہ اور پوری مغربی طاقتیں ہیں.

اِدھر روسی عسکری قیادت, جو اب کرپٹ بھی ہو چکی تھی, اُس کا واسطہ یوکرین کی شکل میں مغربی سرمایہ داری کے ساتھ ہے. مغربی سرمایہ داری کی بنیادی خواہش روس کو مزید کمزور ریاستوں یا حصوں میں تقسیم کر کے چین کے حصے بخرے کرنا ہے. اِس سلسلے میں بھارت کو چین کے مقابل لانا ہے.اِس راہ میں موجود پاکستان کو بھارت کا چھوٹا بھائی بنا کر پاکستان کو بے دست و پا کرنا بھی شامل ہے.

آنے والے وقتوں میں مغرب روسی کرپٹ عسکری اور کاروباری دنیا میں اپنے پروردہ عناصر کو مزید طاقتور کرے گا, اور روس کو ریخت کا شکار کرے گا. چین اور پاکستان کو اِن حالات میں مزید آپسی تعلقات مضبوط کرنا ہوں گے. روس کو اپنے معاشرے سے, خاص کر عسکری قیادت سے کرپشن ختم کرنا ہوگی, ورنہ ایسی پرائیویٹ عسکری کمپنیاں بلا آخر اُس کے اپنے لیئے خطرناک ثابت ہوں گی.
....
عمّاریاسر
26 جون2023

image
Translate   1 year ago

پاکستان ... جو کبھی عرب کے لیئے روشنی تھا
.....
اسی ماہِ رمضان میں سعودی فوٹو گرافر عبدلرحمان ال ساحلی کی مقدس کعبہ کی تصویر نے لوگوں کے دل جیت لیئے جس میں تمام نمازی سفید ملبوس میں سجدہ ریز دکھائی دے رہے ہیں. یہ تصویر سوشل میڈیا پر چند ہی گھنٹوں میں وائرل ہوگئی.

متحدہ عرب امارات کے خلا نورد سلطان النیادی نے انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن سے کعبہ اور مدینہ کی ویڈیوز بنائیں اور زمین پر سعودی عرب کی حکومت کو ارسال کیں, اور اِن ویڈیوز نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی.

اِن دو تازہ تر حوالوں کا تذکرہ اِس لیئے کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ عرب بتدریج تیزی سے بدل رہا ہے. اس تبدیلی کو دنیا انبساط سے خوش آمدید کہہ رہی ہے. تاہم خود عرب, اور باقی مسلم دنیا میں یہ ترقی یا تبدیلی تنقید کی زد میں بھی ہے. اِس کی بنیادی وجہ مسلم دنیا میں وہ روائیتی تصور ہے کہ جس میں جدت کی کوئی گنجائش نہیں. جدت کے ساتھ فحاشی اور عورت کو جوڑ کر ایک قدامت تصور قائم رکھا جاتا ہے. ہم یہ نہیں کہتے کہ جسم کی نمائش جدت ہے, مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ قدامت آخر خود کی عورت, پردے اور فحاشی سے ہی کیوں بنیاد پاتی ہے. قدامت بنیادی طور پر ایک معلق, لاحرکت , اور معکوسِ سوچ کا نام ہے.

متحدہ عرب امارات سات امارات پر مشتمل ہے, اور 1971 تک یہ ریاست ہائے متصالح کہلاتی تھیں.

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب امریکہ کے چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی دوشیزہ نکول سمتھ نڈوک نے 2021 میں برج خلیفہ کی چوٹی پر جا کر اپنی ماں سے مخاطب جملے میں یہ کہا, "ہائے مام, آئی ایم ایٹ دی ٹاپ آف دی ورلڈ (ماں میں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر ہوں) تو اس کا معنی صرف یہ نہیں تھا کہ وہ اونچے ترین برج خلیفہ پر تھی, بلکہ اس کا معنی یہ (بھی) تھا کہ وہ دنیا کے ایک ایسے خطے میں موجود تھی جس نے چند دہائیوں میں دنیا میں ایک بلند و بالا مقام بنا لیا تھا. ہم یہاں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نکول جو امریکہ سے آئی تھی متحدہ عرب امارات کو دیکھ کر حیران رھ گئی کہ دنیا صرف امریکہ نہیں.

جب راقم ایک قانون کے کورس کے سلسلے کے دوران, ہالینڈ میں زیرِ تعلیم تھا, اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں (نوّے کی دہائی کے آخری سال) تو زیادہ تر یورپین شہری پاکستان اور بھارت کو صحرائی ممالک سمجھتے تھے جہاں صحرائی سانپ کلبلاتے اور (جہالت کی) لکیر پیٹتے نظر آتے ہوں.

زرا اس سے دس پیچھے چلے جائیں تو راقم کے گھر سے متصل سعودی طلبہ سے متعلق امور کا دفتر تھا, جہاں بے شمار سعودی طلبہ آتے جاتے رہتے تھے. شام کو سبز گھاس کے گرائونڈ میں سعودی لڑکے اور لڑکیاں (جو ٹائٹ جینز میں ملبوس ہوتی تھیں) والی بال کھلتی تھے. بے شمار عرب اور افریقی طالبعلم اعلی تعلیم کے لیئے پاکستان کا رخ کرتے تھے. اُس وقت پاکستان عرب اور افریقی طالبعلموں کے لیئے خود عرب کی نسبت ایک آزاد, جمہوری اور کھلا پاکستان تھا جہاں کے تعلیمی اداروں میں یورپ کی نسبت تعلیم سستی اور معیاری تھی.

اُس وقت پاکستان کے تعلیمی ادارے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی مغرب نواز ہونے کے باوجود مثبت تھی. تاہم جب افغانستان میں روسی مداخلت ہوئی تو مغرب نے پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاسی, سماجی اور معاشی فضا ہی تبدیل کر دی. اب پاکستان کے روائیتی تعلیمی اداروں کی نسبت جہادی تعلیمی اداروں نے لے لی. مغرب نے عربوں کے ساتھ مل کر مدرسوں کو خوب مالی امداد دی. نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان چند سالوں کے اندر ہی ایک ایسی تنگ غار میں دھکیل دیا گیا جہاں عرب اور افریقہ سے جدید تعلیم کے لیئے پاکستان آنے والے طالب علموں میں شدید کمی ہونے لگی. اب دنیا بھر سے ایسے لوگ اور نوجوان پاکستان آنے لگے جو ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل اجسام تھے, جن میں سے بیشتر لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ سوچ اُنہیں سویت یونین کے خلاف استعمال کر رہی ہے, اور اِس محرک کا تعلق کہیں سے بھی اسلام کے مقاصد سے نہیں.

خیر ہم بات کو مختصر کرتے ہیں, چند ہی سالوں بعد پاکستان جو مغرب کا تنگ نظر لاڈلہ بن کر ابھرا تھا, اب ایک ایسا ملک بن چکا تھا جہاں افغانستان کے روس سے نکل جانے کے بعد دھشت گردی ہو رہی تھی, اور جو دنیا بھر میں اس بنا پر اپنا روشن چہرہ کھو رہا تھا. اِس چہرے پر تیرگی خود مغرب کے سورج گِرہن نے ملی تھی.

مغرب کی نئی پالیسیوں کے تحت عرب کو ایک نئے ڈگر پر استوار کیا جانا شروع ہوا. اس دوران خود عرب کے نوجوان جو پاکستان اور یورپ سے جدید تعلیم حاصل کر چکے تھے, نئے عرب میں نئی سوچوں کو برپا کرنے لگے. انجینئیرنگ ہو, یا میڈیکل کا شعبہ, کاروبار ہو یا موسیقی یا دوسرے فنون, عرب کی نئی نسل نام بنانے لگی. امر دیاب, اسالہ ناصری, نجوا کرم, نینسی اجرم, خالد اور اسی طرح کے بے شمار گلوکاروں نے ناصرف عرب میں, بلکہ دنیا بھر میں تہلکّہ مچا دیا.

اِس سارے دور میں عرب جدید عمارات, سڑکوں, پُلوں اور جدید انفراسٹرکچر سے مزیّن ہوتا چلا گیا. عرب ممالک پہلے سے بھی زیادہ روزگار کے مواقع کے مراکز بن گئے. اب دوسرے مملاک سے لوگ, جو یورپ یا امریکہ آسانی سے نہیں جا سکتے تھے, پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں عرب ممالک کا رخ کرنے لگے تاکہ اچھی کمائی کے ساتھ اچھے ماحول میں زندگی گزار سکیں. سیر و سیاحت کے لیئے لوگ خود یورپ سے عرب ممالک خاص کر دوبئی کا رخ کرنے لگے کیونکہ عرب ملک یورپی لوگوں کے آزاد ماحول, نسبتا٘ سستا ہونے کی بنا پر پُرکشش بن چکے تھے. جبکہ پاکستان ساٹھ اور ستر کے عشروں میں یورپی سیاحوں بشمول ھیپیز کے لیئے انتہائی پرکشش تھا, اب ایک خوفناک تصور بن چکا تھا, جہاں دھشت گردی عروج پر تھی.

اب عرب کی یونیورسٹیوں نے جدید تعلیم کو فروغ دینے کی پالیسی پر تیزی سے کام شروع کیا, اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو سکالرشپ دینے کی آفرز کیں. حال ہی میں سعودی عرب کی یونیورسٹیوں نے اِسی نوعیت کے سکالرشپ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے. آج پاکستان سمیت بھارت, بنگلہ دیش, سری لنکا اور دوسرے ممالک سے بے شمار طالبعلم دوبئی, سعودی عرب, مصر, لبنان اور دیگر عرب ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں.

وہ پاکستان جو کبھی ابھرتا ہوا جدید ملک بنتا نظر آتا تھا, جہاں کی فضا بانسبت دوسرے مسلم ممالک کے بہت حد تک کشادہ اور آزاد تھی, جہاں روزگار کے مواقع بانسبت بھارت کے زیادہ تھے, جہاں غربت کی شرح اردگرد کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم تھی, ایک تنزلی کی طرف جاتا ہوا تنگ نظر سیاسی, سماجی اور معاشی ملک بن چکا ہے, اور مثبت تبدیلی کی کوئی بڑی امید نظر نہیں آتی. پچھلی کئی دہائیوں سے ملک میں سیاسی بے چینی ہے, تنگ نظری ہے, عقیدے کی بنیاد ہر سال کئی کئی جلوس نکالے جاتے ہیں, اور سکیورٹی کی صورتِ حال یا تو ابتر ہو جاتی ہے یا پھر نازک ہوتی جاتی ہے, مخالف سوچ کے حامل شخص کو سیاسی اور مذہبی بنیاد پر عین موقع ہر ہی پتھروں, اینٹوں اور جدید اسلحہ سے قتل کر دیا جاتا ہے, اور ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی بھی حساس نعرہ لگا کر معاشرے کا ہیرو بن جاتا ہے, اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بن کر رھ جاتے ہیں.

چناچہ دیکھا جا سکتا ہے پچھلے ایک دور سے پاکستان خلائی اور سائنسی تحقیق, اور تعلیمی معیار میں کوئی بڑا نام نہ کما سکا. پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا میں اپنا لوہا منوانے میں پیچھے رھ گئیں. جبکہ پاکستان کی نسبت عرب ممالک نے دنیا کو تعلیم, سائنس اور دیگر میدانوں میں متاثر کیا ہے.

پاکستان تہذیب و ثقافت میں بھی اپنی راہ یا مقام متعین کرنے میں ناکام نظر آتا ہے. تقسیم کے نتجے میں آزاد ہونے کے بعد مقامی تہذیب و ثقافت سے بھی پوری طرح منہ نہ موڑ سکا کیونکہ یہ کلچر زمینی جڑوں سے جڑا ہوا تھا. جبکہ پاکستان اسّی کی دہائی سے, خصوصا٘ عرب ممالک سے بھی عرب کلچر بھی سینچتا رہا ہے. چناچہ ہمارا معاملہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا قصّہ ہو گیا ہے. گویا جیسے سر پر ہیٹ پہنے, اور بدن پر عربی چوغہ چڑھائے کوئی شخص عربی زبان کے ساتھ اُردو بول رہا ہو جس میں بے شمار انگلش کے الفاظ بھی ہوں.

اِس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں دانشوروں, فلاسفرز اور ماہرین کی کمی رہی ہے. ہمارے ہاں سوچ پر پتھر پڑے ہیں اور ہاتھ میں قلم نہیں ہے. آج پاکستان کے پچانوے فیصد عوام سیاسی و سماجی شعور کی روشنی سے بہت پیچھے ہیں. آج عرب ممالک پاکستان سے بہت آگے جا چکے ہیں. بنگلہ دیش پاکستان کی نسبت معاشی طور پر ترقی کر چکا ہے. دنیا کی اٹھارہ ممالک جس میں روس اور جرمنی بھی شامل یے بھارتی کرنسی میں تجارت کرنے پر راضی ہیں. آج پاکستان علاقے میں اپنے درینہ دوست چین کو ناراض کرنے پر متفکر نہیں ہے کہ مغرب جس نے پاکستان کو ایک بنجر ریگستان بنا دیا ہے, اُس (پاکستان) کی کی پہلی ترجیح ہے.

دنیا صرف منطقی نظریے اور مسلسل مثبت محنت سے تبدیل ہوتی ہے.
...
عمّاریاسر
20 اپریل 2023

image
Translate   1 year ago

آپ کا تعبیدار

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے روس کے ایک سینیٹر کے الزام کی تردید کرتے ہوئے وضاحت چاہی ہے جس میں پاکستان پر الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان یوکرین کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی ترویج میں مدد فراہم کر رہا ہے.

روسی سینیٹر اگور موروزور نے کہا ہے کہ حال ہی میں یوکرین کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا ہے, اور متعلقہ امور پر بات چیت کی ہے.

پاکستان نے اس کی تردید کی ہے.

اب منطقی نقطہء نظر سے تجزیہ کرتے ہیں.

پہلا: اگر یہ الزام جھوٹا ہے, تو روس اِس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

کیا اِس الزام سے روس اِس خطے میں پاکستان کے قریب آ سکے گا؟
کیا اِس الزام سے پاکستان جو مغرب کا دوست ہے, روس کا پکا دوست ملک بن پائے گا؟
کیا روس یوکرین حالیہ تنازعہ میں یہ الزام لگا کر پاکستان کو خود سے دور کرنا چاہے گا؟

جواب: روس, یوکرین-روس تنازعہ میں جنوبی ایشیاء کے ملک پاکستان کو ہرگز دور نہیں کرنا چاہے گا.
.....

دوسرا: کیا مغرب چاہتا ہے کہ یوکرین, روس کے مقابلے میں ایٹمی ٹیکنالوجیکل اسلحہ سازی کرے؟

آپشن پہلا, نہیں
آپشن دوسرا, ہاں

اوپر کے دو آپشنز پر غور کیا جائے, تو
جواب:
ہاں
......

تیسرا: اب یوکرین کو ایٹمی ٹکنالوجی منتقل کون کرے؟

پاکستان
بھارت
امریکہ
یا کوئی بھی مغربی ملک

جواب: مغربی یورپ اور امریکہ خود کبھی براہِ راست آگے نہیں آئیں گے... تو پھر کون یہ کام کر سکتا ہے؟

پاکستان یا بھارت؟

جواب: بھارت یہ کام نہیں کرے گا. بھارت کی ریاست اپنے مفادات کے خلاف نہیں جائے گی. وہ چین کے مقابلے میں مغرب اور امریکہ کا ساتھ ضرور دے گی, مگر روس سے تعلقات نہیں بگاڑے گی. یہی وجہ ہے بھارت روس سے گیس خریدنا چاہتا ہے, اور اپنے روسی ساختہ اسلحے کو روس کے تعاون سے مزید بہتر کرنا چاہتا ہے....

آخر پاکستان کیوں؟

پاکستان کی تاریخ رہی ہے اُس نے ہمیشہ مغربی طاقتوں کی.ترجیحات پر ملکی مفادات کو قربان کیا ہے. چاہے سینٹو ہو یا نیٹو, چاہے افغانستان میں سویت یونین کو نکالنے کے لیئے مجاہدین تیار کرنے ہوں یا بعد ازاں دھشت گردی کی جنگ میں شریک ہو کر مغرب کو پکی دوستی کا ثبوت دینا ہو...

انجامِ کار

اگر ایسا ہے, تو پاکستان ایک مرتبہ پھر مغرب کی لڑائی میں خود کو قربان کر رہا ہے. مغرب بھارت کے مقابلے میں, پاکستان اِس خدمت کو جوتے کی نوک پر رکھے گا. پاکستان ایک طرف بھارت کی دشمنی سہے گا اور دوسری طرف روس کی نئی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا.

پاکستان کی حالیہ سیاسی بے چینی میں پاکستان میں مغرب نواز سیاسی عناصر کو ہی مضبوط کیا جائے گا.

نوٹ: یہ تجزیہ ملکی مفادات کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا ہے.
....
عمّاریاسر
2 نومبر 2022

image