پاکستان ... جو کبھی عرب کے لیئے روشنی تھا
.....
اسی ماہِ رمضان میں سعودی فوٹو گرافر عبدلرحمان ال ساحلی کی مقدس کعبہ کی تصویر نے لوگوں کے دل جیت لیئے جس میں تمام نمازی سفید ملبوس میں سجدہ ریز دکھائی دے رہے ہیں. یہ تصویر سوشل میڈیا پر چند ہی گھنٹوں میں وائرل ہوگئی.

متحدہ عرب امارات کے خلا نورد سلطان النیادی نے انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن سے کعبہ اور مدینہ کی ویڈیوز بنائیں اور زمین پر سعودی عرب کی حکومت کو ارسال کیں, اور اِن ویڈیوز نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی.

اِن دو تازہ تر حوالوں کا تذکرہ اِس لیئے کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ عرب بتدریج تیزی سے بدل رہا ہے. اس تبدیلی کو دنیا انبساط سے خوش آمدید کہہ رہی ہے. تاہم خود عرب, اور باقی مسلم دنیا میں یہ ترقی یا تبدیلی تنقید کی زد میں بھی ہے. اِس کی بنیادی وجہ مسلم دنیا میں وہ روائیتی تصور ہے کہ جس میں جدت کی کوئی گنجائش نہیں. جدت کے ساتھ فحاشی اور عورت کو جوڑ کر ایک قدامت تصور قائم رکھا جاتا ہے. ہم یہ نہیں کہتے کہ جسم کی نمائش جدت ہے, مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ قدامت آخر خود کی عورت, پردے اور فحاشی سے ہی کیوں بنیاد پاتی ہے. قدامت بنیادی طور پر ایک معلق, لاحرکت , اور معکوسِ سوچ کا نام ہے.

متحدہ عرب امارات سات امارات پر مشتمل ہے, اور 1971 تک یہ ریاست ہائے متصالح کہلاتی تھیں.

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب امریکہ کے چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی دوشیزہ نکول سمتھ نڈوک نے 2021 میں برج خلیفہ کی چوٹی پر جا کر اپنی ماں سے مخاطب جملے میں یہ کہا, "ہائے مام, آئی ایم ایٹ دی ٹاپ آف دی ورلڈ (ماں میں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر ہوں) تو اس کا معنی صرف یہ نہیں تھا کہ وہ اونچے ترین برج خلیفہ پر تھی, بلکہ اس کا معنی یہ (بھی) تھا کہ وہ دنیا کے ایک ایسے خطے میں موجود تھی جس نے چند دہائیوں میں دنیا میں ایک بلند و بالا مقام بنا لیا تھا. ہم یہاں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نکول جو امریکہ سے آئی تھی متحدہ عرب امارات کو دیکھ کر حیران رھ گئی کہ دنیا صرف امریکہ نہیں.

جب راقم ایک قانون کے کورس کے سلسلے کے دوران, ہالینڈ میں زیرِ تعلیم تھا, اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں (نوّے کی دہائی کے آخری سال) تو زیادہ تر یورپین شہری پاکستان اور بھارت کو صحرائی ممالک سمجھتے تھے جہاں صحرائی سانپ کلبلاتے اور (جہالت کی) لکیر پیٹتے نظر آتے ہوں.

زرا اس سے دس پیچھے چلے جائیں تو راقم کے گھر سے متصل سعودی طلبہ سے متعلق امور کا دفتر تھا, جہاں بے شمار سعودی طلبہ آتے جاتے رہتے تھے. شام کو سبز گھاس کے گرائونڈ میں سعودی لڑکے اور لڑکیاں (جو ٹائٹ جینز میں ملبوس ہوتی تھیں) والی بال کھلتی تھے. بے شمار عرب اور افریقی طالبعلم اعلی تعلیم کے لیئے پاکستان کا رخ کرتے تھے. اُس وقت پاکستان عرب اور افریقی طالبعلموں کے لیئے خود عرب کی نسبت ایک آزاد, جمہوری اور کھلا پاکستان تھا جہاں کے تعلیمی اداروں میں یورپ کی نسبت تعلیم سستی اور معیاری تھی.

اُس وقت پاکستان کے تعلیمی ادارے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی مغرب نواز ہونے کے باوجود مثبت تھی. تاہم جب افغانستان میں روسی مداخلت ہوئی تو مغرب نے پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاسی, سماجی اور معاشی فضا ہی تبدیل کر دی. اب پاکستان کے روائیتی تعلیمی اداروں کی نسبت جہادی تعلیمی اداروں نے لے لی. مغرب نے عربوں کے ساتھ مل کر مدرسوں کو خوب مالی امداد دی. نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان چند سالوں کے اندر ہی ایک ایسی تنگ غار میں دھکیل دیا گیا جہاں عرب اور افریقہ سے جدید تعلیم کے لیئے پاکستان آنے والے طالب علموں میں شدید کمی ہونے لگی. اب دنیا بھر سے ایسے لوگ اور نوجوان پاکستان آنے لگے جو ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل اجسام تھے, جن میں سے بیشتر لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ سوچ اُنہیں سویت یونین کے خلاف استعمال کر رہی ہے, اور اِس محرک کا تعلق کہیں سے بھی اسلام کے مقاصد سے نہیں.

خیر ہم بات کو مختصر کرتے ہیں, چند ہی سالوں بعد پاکستان جو مغرب کا تنگ نظر لاڈلہ بن کر ابھرا تھا, اب ایک ایسا ملک بن چکا تھا جہاں افغانستان کے روس سے نکل جانے کے بعد دھشت گردی ہو رہی تھی, اور جو دنیا بھر میں اس بنا پر اپنا روشن چہرہ کھو رہا تھا. اِس چہرے پر تیرگی خود مغرب کے سورج گِرہن نے ملی تھی.

مغرب کی نئی پالیسیوں کے تحت عرب کو ایک نئے ڈگر پر استوار کیا جانا شروع ہوا. اس دوران خود عرب کے نوجوان جو پاکستان اور یورپ سے جدید تعلیم حاصل کر چکے تھے, نئے عرب میں نئی سوچوں کو برپا کرنے لگے. انجینئیرنگ ہو, یا میڈیکل کا شعبہ, کاروبار ہو یا موسیقی یا دوسرے فنون, عرب کی نئی نسل نام بنانے لگی. امر دیاب, اسالہ ناصری, نجوا کرم, نینسی اجرم, خالد اور اسی طرح کے بے شمار گلوکاروں نے ناصرف عرب میں, بلکہ دنیا بھر میں تہلکّہ مچا دیا.

اِس سارے دور میں عرب جدید عمارات, سڑکوں, پُلوں اور جدید انفراسٹرکچر سے مزیّن ہوتا چلا گیا. عرب ممالک پہلے سے بھی زیادہ روزگار کے مواقع کے مراکز بن گئے. اب دوسرے مملاک سے لوگ, جو یورپ یا امریکہ آسانی سے نہیں جا سکتے تھے, پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں عرب ممالک کا رخ کرنے لگے تاکہ اچھی کمائی کے ساتھ اچھے ماحول میں زندگی گزار سکیں. سیر و سیاحت کے لیئے لوگ خود یورپ سے عرب ممالک خاص کر دوبئی کا رخ کرنے لگے کیونکہ عرب ملک یورپی لوگوں کے آزاد ماحول, نسبتا٘ سستا ہونے کی بنا پر پُرکشش بن چکے تھے. جبکہ پاکستان ساٹھ اور ستر کے عشروں میں یورپی سیاحوں بشمول ھیپیز کے لیئے انتہائی پرکشش تھا, اب ایک خوفناک تصور بن چکا تھا, جہاں دھشت گردی عروج پر تھی.

اب عرب کی یونیورسٹیوں نے جدید تعلیم کو فروغ دینے کی پالیسی پر تیزی سے کام شروع کیا, اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو سکالرشپ دینے کی آفرز کیں. حال ہی میں سعودی عرب کی یونیورسٹیوں نے اِسی نوعیت کے سکالرشپ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے. آج پاکستان سمیت بھارت, بنگلہ دیش, سری لنکا اور دوسرے ممالک سے بے شمار طالبعلم دوبئی, سعودی عرب, مصر, لبنان اور دیگر عرب ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں.

وہ پاکستان جو کبھی ابھرتا ہوا جدید ملک بنتا نظر آتا تھا, جہاں کی فضا بانسبت دوسرے مسلم ممالک کے بہت حد تک کشادہ اور آزاد تھی, جہاں روزگار کے مواقع بانسبت بھارت کے زیادہ تھے, جہاں غربت کی شرح اردگرد کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم تھی, ایک تنزلی کی طرف جاتا ہوا تنگ نظر سیاسی, سماجی اور معاشی ملک بن چکا ہے, اور مثبت تبدیلی کی کوئی بڑی امید نظر نہیں آتی. پچھلی کئی دہائیوں سے ملک میں سیاسی بے چینی ہے, تنگ نظری ہے, عقیدے کی بنیاد ہر سال کئی کئی جلوس نکالے جاتے ہیں, اور سکیورٹی کی صورتِ حال یا تو ابتر ہو جاتی ہے یا پھر نازک ہوتی جاتی ہے, مخالف سوچ کے حامل شخص کو سیاسی اور مذہبی بنیاد پر عین موقع ہر ہی پتھروں, اینٹوں اور جدید اسلحہ سے قتل کر دیا جاتا ہے, اور ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی بھی حساس نعرہ لگا کر معاشرے کا ہیرو بن جاتا ہے, اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بن کر رھ جاتے ہیں.

چناچہ دیکھا جا سکتا ہے پچھلے ایک دور سے پاکستان خلائی اور سائنسی تحقیق, اور تعلیمی معیار میں کوئی بڑا نام نہ کما سکا. پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا میں اپنا لوہا منوانے میں پیچھے رھ گئیں. جبکہ پاکستان کی نسبت عرب ممالک نے دنیا کو تعلیم, سائنس اور دیگر میدانوں میں متاثر کیا ہے.

پاکستان تہذیب و ثقافت میں بھی اپنی راہ یا مقام متعین کرنے میں ناکام نظر آتا ہے. تقسیم کے نتجے میں آزاد ہونے کے بعد مقامی تہذیب و ثقافت سے بھی پوری طرح منہ نہ موڑ سکا کیونکہ یہ کلچر زمینی جڑوں سے جڑا ہوا تھا. جبکہ پاکستان اسّی کی دہائی سے, خصوصا٘ عرب ممالک سے بھی عرب کلچر بھی سینچتا رہا ہے. چناچہ ہمارا معاملہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا قصّہ ہو گیا ہے. گویا جیسے سر پر ہیٹ پہنے, اور بدن پر عربی چوغہ چڑھائے کوئی شخص عربی زبان کے ساتھ اُردو بول رہا ہو جس میں بے شمار انگلش کے الفاظ بھی ہوں.

اِس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں دانشوروں, فلاسفرز اور ماہرین کی کمی رہی ہے. ہمارے ہاں سوچ پر پتھر پڑے ہیں اور ہاتھ میں قلم نہیں ہے. آج پاکستان کے پچانوے فیصد عوام سیاسی و سماجی شعور کی روشنی سے بہت پیچھے ہیں. آج عرب ممالک پاکستان سے بہت آگے جا چکے ہیں. بنگلہ دیش پاکستان کی نسبت معاشی طور پر ترقی کر چکا ہے. دنیا کی اٹھارہ ممالک جس میں روس اور جرمنی بھی شامل یے بھارتی کرنسی میں تجارت کرنے پر راضی ہیں. آج پاکستان علاقے میں اپنے درینہ دوست چین کو ناراض کرنے پر متفکر نہیں ہے کہ مغرب جس نے پاکستان کو ایک بنجر ریگستان بنا دیا ہے, اُس (پاکستان) کی کی پہلی ترجیح ہے.

دنیا صرف منطقی نظریے اور مسلسل مثبت محنت سے تبدیل ہوتی ہے.
...
عمّاریاسر
20 اپریل 2023

image