غزل

یہ رات تو جیسے کٹتے کٹتے گزرے گی
اِک کِتھا کہانی لکھتے لکھتے گزرے گی

کیا آج کا دن بھی بھیگے لب کا نہ ہو گا
کیا آج کی شام بھی چپکے چپکے گزرے گی

ہیں شہر میں چرچے اپنی بادہ خوری کے
اور آج کی رات بھی پیتے پیتے گزرے گی

پھر یادوں کی گائِک نے غزل سی چھڑی ہے
اب رات ستارے چُنتے چُنتے گزرے گی

کیا اُس نے 'نہیں' سے آگے کچھ اور کہنا تھا
اِس بات پہ شب یہ ٹکڑے ٹکڑے گزرے گی

یوں دور گئے وقتوں کے رستے قائم ہیں
ہر بات بظاہر بُنتے بُنتے گزرے گی

صبح ہو گی تو 'دیوانہ' لوگ کہیں گے پھر
سو خود پہ یہ شب ہنستے ہنستے گزرے گی

کچھ جگنو تارے ساتھ نبھانے آئے ہیں
یہ راہ سنگت میں رُکتے رُکتے گزرے گی

ہم سانس کو گِروی کر کے تجھ تک پہنچے تھے
یہ جان مگر اب بِکتے بِکتے گزرے گی

عمّاریاسر
28 جنوری 2024

image