غزل

وہ اپنی پلکیں اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں
وہ شام ہنس کے سجا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اِس لیئے بھی تو منہ کو چھپائے پھرتے ہیں
وہ بھر کے جام پلا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اپنے آپ میں بیٹھے ہیں بت کی صورت کیوں؟
وہ اپنی پلکیں گِرا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا ہے اُس کے بھی دل کو ہاں چوٹ گہری ہے
وہ دل سے اپنی سنا دے تو کوئی جائے کہاں

اٹھا ہے غدر قیامت کا اے رفیقِ سفر
دیوار ہم پہ لگا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم در بدر سے جو پھرتے ہے آہ و زاری سے
وہ پردہ اپنا اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں

تلاشِ خوباں کی عجلت میں دل سے ہار گئے
کوئی تو اُس کا پتا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا یے بس میں خدائی کے سارے رستے ہیں
ہمیں بھی راہ سے مِلا دے تو کوئی جائے کہاں

یہ شوقِ دیدِ تمنا ہے اب بھی قائم کیوں؟
وہ اپنا چہرہ دِکھا دے تو کوئی جائے کہاں

عمّاریاسر
11 فروری 2024

image