غزل

بدل گئے ہیں راستے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے
ہوں جفا کے سلسلے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

دوستوں کے درمیاں ہو پیار بھی تو وقت پر
زندگی کے واسطے پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

ہو رقیب کا ستم جو ایک دل کو توڑ دے
ہوں جو ایسے معاملے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

مان کر دلیل کو, ٹوٹ جائے کوئی دل
چین پھر نہ مل سکے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

سیدھی سیدھی بات کا, کیا راستہ, کیا واسطہ
سینے میں ہوں دائرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم مگر یونہی نہیں آج آئے ہو یہاں کہ اب
سب عیاں ہے آنکھ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم میرے قریب ہو, اس قدر کہ اس قدر
ہائے شوخ شوخ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

پیار میں قرین ہے زندگی کے چین کو
نین ہیں بھرے بھرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

کل ہی تو گئے ہو تم اب کہاں تم آئو گے
پھر نصیب کِھل پڑے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

عمّار یاسر
25 فروری 2024

image