غزل

پال کر پوس کر رکھا ہوا
دل کسے چاہیئے ٹوٹا ہوا

جب بھی گزرا اجاڑ رستے سے
چوک میں کوئی تھا بیٹھا ہوا

بارہا یوں ہوا ہے اکثر کہ
اُس نے سوچا میرا سوچا ہوا

کون لے جائے گا سجانے کو
اِک میرا دل جو ہے ٹوٹا ہوا

یاد بھی اِک کتاب ماضی کی
وعدہ مجھ سے کیا بھولا ہوا

وہ کوئی خواب تھا, حقیقت تھا
وہ کوئی خواب تھا دیکھا ہوا

بالا منزل عمارتوں کے تلے
جا رہا کون تھا الجھا ہوا

وہ میرا تھا یوں آسمانوں سے
اِس زمیں پہ نہیں میرا ہوا

ہات میں تھام کر وہ اِک بادل
تھا صبا نے کہا برسا ہوا

اُس کے نینا بھرے کٹورے سے
کتنا بے بس تھا وہ اِک ترسا ہوا

رات کی یاد میں معطر سا
خوش بدن تھا کوئی مہکا ہوا

عمّاریاسر
21 مارچ 2024

image