کیا مغربی جمہوریت بہتر سائنس تخلیق کرتی ہے؟
.....
ایک مشہور و معروف یوٹیوبر بڑی شد و مد سے متعدد دفعہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چائینہ (چین) نے جتنی ترقی کرنی تھی کرلی اب اس سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا. وہ اکثر یہ بھی فرماتے ہیں کہ چین کی بیشتر ٹیکنالوجی اصل کی نقل ہے. اُن کا یہ بھی استدلال ہے کہ چونکہ وہ جمہوری نظام نہیں ہے, اس لیئے ترقی کا مندرج اس سے زیادہ بلند سطح پر نہیں جا سکتا.

ایسے دانشوروں کی سوچ میں ترقی کے لیئے جمہوریت (مغربی) کا ہونا ضروری ہے. جہاں تک جمہوریت اور آئین کا تعلق ہے, ہم اُس سے سو فیصد متفق ہیں. تاہم جمہوریت کی تعریف مختلف سیاسی نظاموں کے تحت مختلف ہو سکتی ہے. لوگ کسی بیل کی طرح گردن ہلا کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کو قرار دیتے ہیں. ایسا وہ اِس لیئے کہتے ہیں کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے.

اگر جمہوریت آبادی کی عددی گنتی سے مانپی جاتی ہے, تو یہ جمہوریت کی بودی اور بے بنیاد تعریف ہے. اس کی بنیادی وجہ بھارت کی اکثریت آبادی غربت, افلاس اور انسانی حقوق کی محرومی سے دوچار ہے.

اگر جمہوریت مغربی طرزِ جمہور ہے کہ جس میں بڑے بڑے سرمایہ دار, کاروباری شخصیات اور بڑے بڑے جاگیردار اور برہمن الیکشن لڑ کر اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں تو یہ بھی جمہوریت نہیں ہے.

تو پھر جمہوریت کیا ہے؟

کیا جمہوریت وہ ہے جو برطانیہ میں ہے, یا امریکہ میں ہے؟ بیشتر لوگوں کا جواب ہو گا, ہاں.

چلیں اب ہم اس جمہوریت کو بھی دیکھ لیتے ہیں. ہم امریکہ سے بات شروع کرتے ہیں. امریکہ میں جمہوری نظام کو بنیادی طور پر ریاست کا وہ ڈھانچہ کنٹرول کرتا ہے جسے اُس کے انٹیلجنس ادارے اور پینٹاگون نے اپنی گرفت میں لیا ہوتا ہے. امریکی صدر خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو, امریکہ کی بنیادی پالیسی سے ہٹ کر زرا بھی پر نہیں مار سکتا.

اس کے جواب میں یہ استدلال دیا جا سکتا ہے کہ ایسا تو ہر ملک میں ہوتا ہے, بالکل درست بات ہے.

تیرھویں صدی میں برطانیہ کے مطلق العنان بادشاہ کے خلاف عوامی غیض و غضب بڑھتا جا رہا تھا. ابھرتی سرمایہ داری اور موجود جاگیرداری طبقے سے تعلق رکھنے والے معززین جنہیں Barons کہا جاتا تھا, بادشاہ کے غیر جمہوری اور آمرانہ پالیسیوں اور ٹیکسوں سے پریشان تھے. عوام کی بے چینی کو اِن ہی معززین نے اپنے مقصد کے لیئے استعمال کیا, اور لندن کی سڑکوں اور پارکوں پر عوام نے دن اور رات کے ایک لمبے عرصے تک کے لیئے اپنے قبضے میں لے لیا. بلا آخر 1215ء کو بادشاہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور تاریخی دستاویز المعروف میگناکارٹا (Magna Carta) پر بادشاہ نے دستخط کیئے.

اِس (مغربی) جمہور دستاویز کے باوجود 1757ء سے لے کر 1858ء کے عرصے کے دوران تاج برطانیہ نے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد ازاں براہِ راست خود ہندوستان پر قبضہ مضبوط کر لیا. اب اِس سارے غیرجمہوری نو آبادیاتی نظام میں یہی میگنا کارٹا کی فصل سے فیضیاب معززین کے نئی نسلیں ہی شامل تھیں. اِس جمہوری نظام نے آخری مغل بادشاہ کو معزول کر کے اس کے بیٹوں کے سر قلم کرنے کے بعد ایک طشتری میں معزول بادشاہ کو پیش کیئے تھے کہ بچے کھچے مغل شاہی خاندان, اُس کے معززین اور فوج کو شدید خوف زدہ کر کے تاجِ برطانیہ کا پرچم لہرایا جا سکے. کہا جاتا ہے نیم غنودگی میں کسی ہندوستانی حجام سے اگر اُسترا زرا غلط چل جاتا, تو صحت مند برطانوی افسر لاتوں اور گھونسوں سے کمزور و نحیف ہندوستانی کو جان سے مارنے سے بھی نہ چوکتے تھے. کوئی مقدمہ نہ چل سکتا تھا, بس ایک ٹکہ معاوضہ دے کر بات ختم کر دی جاتی تھی.

تو یہ تھی برطانیہ کی جمہوریت جو آج بھی دوسرے مغربی طرزِ جمہوریت کے حامل ممالک کے ساتھ اسرائیل کی بربریت کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے, جو آج بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کی تباہی کو غیر انسانی اور غیر جمہوری کہنے کو تیار نہیں. آج کی انسانی تاریخ میں مغربی جمہوریت نے کس طرح چھوٹے ملکوں پر چڑھائی کی ہے.

اب ہم چین کی طرف آتے ہیں. چین خود کو عوامی جمہوریہ کہلاتا ہے. چین کا نظام کسی انتخابی جہموریت کی پیداوار نہیں. بلکہ یہ نظام عوامی انقلاب کے زریعے برپا ہوا. عوام کی اِس انقلابی تحریک کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے قیادت فراہم کی. عوام کی اس تحریک نے تمام جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ نظام اور طبقات کو پچھاڑ دیا. ایک نیا نظام قائم ہوا. ملک کی قیادت عوام نے سنبھالی. اس ساری تبدیلی میں کوئی جاگیردارانہ معززین (Barons) شامل نہیں تھے, کہیں کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں تھی, کوئی بل آف رائیٹس (Bill of Rights) جسے ابھرتی امریکی سرمایہ داری نے 25 ستمبر 1791ء کو منظور کیا تھا, شامل نہیں تھی. اسی بِل آف رائیٹس کو منظور کرنے والوں نے یکم مئی 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کے سفید جھنڈوں کو اُن کے خون سے سرخ کیا تھا.

چناچہ جمہوریت کی تعریف بہت سادہ سی ہے, عوام کی حکومت عوام کے زریعے. اِس کا بنیادی عنصر جدوجہد بر خلاف فرسودہ نظام اور اس کا غیر مشروط خاتمہ ہے. میگنا کارٹا اور بل آف رائیٹس نے فرسودہ اور ظالمانہ نظاموں کا خاتمہ نہیں کیا تھا, بلکہ پیوند کاری کی تھی.

اب سوال یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوری نظام سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ اور زیادہ بہتر ترقی کرتا ہے بانسبت عوامی جمہوری نظام کے؟ اگر مغربی جمہوریت کو ترقی کی بنیاد سمجھا جائے, تو یہ صریحا٘ غیر منطقی بات ہو گی. مغربی جمہوریت یا عوامی جمہوریت سیاسی و معاشی نظام ہیں. سائنس ایک علیحدہ معاملہ ہے. سائنس کی ترقی کے لیئے حکومتی پالیسی, ماحول اور علمی و ٹیکنالوجی کی خواندگی کا دخل ہے. تاہم عوامی جمہوری ازخود کوئی ایسی انسانی تباہی کی ٹیکنالوجی نہیں بناتی یا بنائے گی جو اس دنیا میں عفریت اور تباہی کا موجب بنے ماسوائے کہ اس کے اطراف میں ایسا ماحول بنا کر اسے دفاعی طور پر مجبور نہ کر دیا جائے.

چناچہ یہ نظریہ کہ مغربی جمہوریت ہی جمہوریت ہے, اور عوامی جمہوریت, آمریت ہے, ایک غیر منطقی اور بے اصولی بات ہے, اور پھر یہ نتیجہ نکالنا کہ معربی جمہوریت, بانسبت عوامی جمہوریت کے بہتر سائنس دان پیدا کرتی ہے, ایجادات اور تخلیقات کر سکتی ہے, بھی ایک ڈھکوسلہ ہے۔ خود فریبی ہے اور یکطرفہ سوچ ہے تا کہ دنیا کو گمراہ کیا جا سکے.
....
عمّاریاسر
4 مئی 2024

image