غالب جانی تو درکار ہے
جالب جانی تو درکار ہے
فیض جانی تیری ضرورت
جون جانی تو درکار ہے

زنجیروں میں جکڑے ہیں لکھاری اب لکھنے سے رہے
جو لکھے وہ مارا جائے وقت ایسا ہے تو درکار ہے
ماضی میں تونے ظلم سہے حال بھی تیرا چھین لیا
تیری قلم نے ماضی بدلا حال بدلنے کو تو درکار ہے

غالب جانی تو درکار ہے
جالب جانی تو درکار ہے
فیض جانی تیری ضرورت
جون جانی تو درکار ہے

قوم کو تونے لکھ کے دیا ہے کیا کرنا ہے آگے چل کر
پڑھنا قوم کو کون سکھائے پڑھنے کو بھی تو درکار ہے
تیرے دور کے رہبر کو، حد اسکی ہے تونے بتائی
میرے دور میں تھوڑا آجا رہبر وہی ہے تو درکار ہے

غالب جانی تو درکار ہے
جالب جانی تو درکار ہے
فیض جانی تیری ضرورت
جون جانی تو درکار ہے

ایسی قلم نہ دیکھی ہم نے
نا دیکھا کوئی لکھنے والا
جنگ تونے جو چھیڑ دی ہے اب
جیتنے کو اب تو درکار ہے

غالب جانی تو درکار ہے
جالب جانی تو درکار ہے
فیض جانی تیری ضرورت
جون جانی تو درکار ہے

جانی ظالم مانتے تجھکو ،تجھکو لکھاری اپنا کہتے
شان و شوکت نام کی تیرے تجھ کو سرکاری اپنا کہتے
ملک کا روشن نام کیا اور قوم کا تونے بلند کیا سر
وہ شان و شوکت ملنے کو اب جانی میرے تو درکار ہے

غالب جانی تو درکار ہے
جالب جانی تو درکار ہے
فیض جانی تیری ضرورت
جون جانی تو درکار ہے

وہاب جسکانی

#وہاب_جسکانی_کی_قلم_سے

image
image
image
image