وہ
---------
"ساتویں قسط"
--------
خوشبو والی ربڑ، نبیلہ اور چاند۔۔۔
------------------
مجھے وہ ربڑ، یعنی اریزر ابھی تک یاد تھی جو بچپن میں میرے ساتھی طالبعلم اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ کتنی خوشبو تھی اُس میں۔ ایک عجیب خوشبو۔۔۔۔ وہ خوشبو میرے حواس پر چھا جاتی تھی۔ دو رنگوں سے مرصع وہ ربڑ سکول بیگ کو مہکا سا دیتی تھِی ۔۔۔۔ سفید اور سبز، یا اورینج اور سفید ۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ دنیا کی سب سے خوبصورت شے وہ ربڑ ہی تھی۔ میں یہ جاننے سے قاصر تھا کہ آخر اُس ربڑ میں کیا تھا جو مجھے اپنی طرف راغب کرتا تھا۔

معصوم سوچوں میں چاند تو نبیلہ بھی تھی، جو ذہین بھی تھی خوبصورت بھی۔ وہ پرائمری سکول میں میری کلاس فیلو تھی. نبیلہ کلاس میں ھمیشہ فرسٹ آتی تھی۔ وہ سکول کے مین گیٹ پر ایک بڑی سی کارسے اترتی تھی۔ میرے لیے وہ ایک لطیف جادو کی پُڑیا تھی ۔۔۔۔۔ حسیں، جمیل خاموش سی, نازک سی۔ میں اُن احساسات کو رومانوی رنگ نہیں کہہ سکتا۔ یہ احساسات بالکل ویسے ہی تھے، جیسے بچپن میں کوئی طالبِ علم اپنے ٹیچر کو پسند کرتا ہے، کیونکہ وہ اُنہیں رہنمائی دیتا ہے۔ جب بچہ پرائمری سکول تک پہنچتا ہے تو اُس کے لیئے شعور کے ساتھ دنیا دیکھنے کا نیا نیا تجربہ یا مشاہدہ شروع ہوتا ہے۔ وہ ماں باپ، بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ, پہلی دفعہ نئے تعلقات سے واقف ہو رہا ہوتا ہے۔ میرے لیئے بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال تھی۔ یہ نئی واقفیت سماجی تعلقات ضرور تھے۔ مگر عمر کے اِس دور میں اِن معاملات کا بچے کو علم نہیں ہوتا۔ بچہ ہر کسی سے اتنی جلدی گھلتا مِلتا نہیں، بلکہ جھجھک آڑے آجاتی ہے۔ پھر میں تو ویسے ہی غیروں کے سامنے کم گو سا رہتا تھا۔ میں دیکھتا تھا کئی بچے اِدھر اُدھر یوں چھلانگیں مارتے پھرتے تھے، جیسے گھر کا صحن ہو، بلکہ یوں لگتا تھا گویا گھر سے رہا ہو کر آئے ہوں۔ اسی بنا پر میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کوئی بہت گھلتا ملتا نہیں تھا, تاہم کسی کونے میں پڑا فالتو رف کاغذ بھی نہ تھا.

میرے اندر ہی اندر، شاید ایک احساسِ کمتری پوشیدہ تھی۔ یہ احساسِ کمتری ہر اُس جگہ ایک رکاوٹ کی طرح آ کر کھڑی ہوتی تھی، جہاں سے زات کا اظہار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی میں خود کو دوسروں کے مقابلے کا اہل نہیں سمجھتا تھا۔ اِس کیفیت نے مجھے سامع تو بہت اچھا بنا دیا مگر مقرر ہونے کی صلاحیت کو دبا سا دیا۔ گویا کسی کو بولتے ہوئے سننا عادت بن گئی، مگر اندر کے ردِعمل یا اُس کے اظہار کو زبان نہ مل سکی۔ خیالات اندر ہی اندر دفن ہونا شروع ہوگئے۔ میرے اندر سوچیں جمع ہونا شروع ہو گئِں، خیالات پیدا ہو کر، تبدیل بھی ہو جاتے اور رد بھی ہو جاتے، گویا میں نے اپنے اندر ایک دنیا بنا لی، اپنی مرضی کی دنیا۔

خیالات کہیں نہ کہیں درد کے نوحے بن گئے,ماتم بن گئے, مگر چٹانوں سے پٹختے پٹختے تخلیقی ہو گئے. ساحلوں کی چٹانیں لہروں کے مسلسل ٹکرائو سے خوبصورت تراش خراش سے خوبصورت ہوتی چلی گئیں. ساحل پر خود رو پھول دار جھاڑیاں پنپنے لگیں. درخت اور پیڑ خود رو انداز سے نشو نما پانے لگے, اور دور دور سے خوبصورت اور دل موہ لینے والی آوازوں والے رنگین پرندے اندرونی ماحول کو خوبصورت بنانے لگے. اِس اندر کی دنیا میں گونگے لفظ ترنم کی شبنم بنتے چلے گئے. اِن احساسات نے میری باریک انگلیوں میں فن کاری بو دی, اور میں بہترین اور قابلِ تعریف سکیچ اور ڈرائینگ بنانے لگا.

اِس دنیا میں خوشبو والی ربڑ بھی تھی اور نبیلہ بھی۔ اب مجھے نبیلہ سے بات کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی، اور نہ رِسیس یا بریک میں اُس کے ساتھ کھیلنے کی خواہش کروٹیں بدلتی تھی۔ مگر اِس کے باوجود باہر کی دنیا کی حقیقت مجھے تکلیف ضرور دیتی تھی، اور بے چینی بھی. میں سوچنے لگتا کہ کاش میرے پاس بھی خوشبو والی ربڑ ھوتی، نبیلہ مجھ سے بھی بات کِیا کرتی، جیسے دوسرے لڑکوں اور لڑکیوں سے باتیں کرتی تھی اور کھیلتی تھی خاص طور پر اسد سے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے اندر کی دنیا مضبوط ہوتی چلی گئی۔ میرے اندر خیالات اور خواہشات کے بے شمار سمندر بننے لگے۔ یہ خیالات کہیں نہ کہیں درد کے نوحے بن گئے، ماتم بن گئے۔

درحقیقت نبیلہ ایک استعارہ تھی، اور یہ استعارہ چاند کا روپ دھارے رہتا تھا۔ جب وہ سب سے ہنستی کھیلتی باتیں کرتی، اور مجھے دیکھتی تک نہ تھی، بلکہ شاید اُسے احساس بھی نہیں تھا کہ میں اُس کے بارے میں کیا سوچتا ہوں، تو میرے اندر درد کے پھوڑے ٹوٹتے پھوٹتے رہتے۔ میں چپ چاپ غیر محسوس طریقے سے ہی سب کچھ برداشت کرتا رھتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرے دل میں کوئی چاند کھو گیا ہو ... اُداسی نے گھر بنا لیا ہو ... جیسےلاھور کی گرم شاموں میں مغرب کے بعد چاند نکلتا ھی نہ ہو۔ لاھور کی اُداس، گرم تپتی شامیں کتنی خاموش ھوتیں تھیں۔ درخت خاموشی اُڑھ کر اُداس کھڑے دِکھائی دیتے تھے کہ جیسے شام کے انجانے جھٹپٹے میں کوئی غیرمتوقع خبر سُن کر سکتے کا شکار ھو گیا ھو

رات کو باھر صحن میں لیٹے لیٹے میں ٹھنڈی چادر پر ٹانگیں پسارے پسارے چاند کو آسمان پر تلاشتے تلاشتے سو جاتا۔ مجھے یوں لگتا گویا چاند میرے بہت قریب فضاء میں اُتر آیا ھو ۔۔۔ اور اپنی چاندنی کی ٹھندک سے مجھے سکون بہم پہنچا رہا ہو۔ آسمان کے سارے ستارے نغمگاں ہو گئے ہوں ۔۔۔ پھر کھلے صحن میں رات کی رانی کی خوشبو لٹانے لگتی ۔۔۔۔ اور وہ خوشبو میرے پاس مجسم ہو کر آ کھڑی ہوتی ۔۔۔۔ پھر یوں لگتا کہ میرے تھکے ہارے وجود سے خوشبو والی ربڑ نے حجم میں پھیل کر, لِپٹ کر ساری اُداسی اتار دی ہو، وہ لطیف احساس سکون پرور ہو جاتا ۔۔۔ اور تب اندر کی دنیا میں قید سارے احساس مسکرانے لگتے۔۔۔ ساری اداسِیاں قسمیں کھانے لگتیں کہ اب کبھی اندھی خاموشی کا موجب نہ بنیں گی، اور یہ کہ اب کبھی جدائی نہ ھو گی۔ چاند پہلو میں اُتر آتا۔

"بھِن ۔۔۔ بھِن ۔۔۔۔ بھِن ۔۔۔۔ بھِن" صبح ھوتے ھی مکھیوں کا انبار اُمند آتا اور چہرے پر براجمان ھونے کا جتن کرتا۔۔۔ رات کی بساط پر بچھایا گیا سارا طلسم اور سحر ٹوٹ جاتا۔۔۔ خوشبو والی ربڑ، نبیلہ اور چاند۔۔۔ سب "بھِن بھن" کی کرخت آوازوں میں کہیں گم ہو جاتے یا کہیں اور چلے جاتے۔

پھر ماں کی آواز سناءی دیتی " اُٹھ جائو بیٹا ۔۔۔۔ سکول سے دیر ھوجاے گی۔۔۔"

۔۔ اور میرا دل یونہی بوجھل سا ہو کر متلانے لگتا۔
--------------
عمّاریاسر
29 اکتوبر
2012

image