Translate   1 year ago

من موجی
.................
چاند اور دھول
11 ویں قسط
--------------
دیوانگی کی سزا
-----------------
ایک سال بعد ہی میرا کا کزن میرے سکول میں آگیا کیونکہ وہ انگریزی/انگلش میڈیم سکول میں تعلیمی لحاظ سے ایڈجسٹ نہ ھو پایا تھا۔ اب میرے لیئے سب آسان ھو چُکا تھا۔ مگر ساتھ ھی ایک نئی مصیبت پیدا ھو گئی۔ میرا کزن بہت غصیلہ تھا اور اِسی وجہ سے اور بے ربط رویوں کی بُنا پر دوستوں کے مذاق کا نشانہ بنتا اور پھر وہ جھنجھلا کر اُن سے لڑنے پر تُل جاتا, اِس کے باوجود کہ وہ مقابل لڑکوں کی.نسبت زیادہ طاقتور نہ تھا. میرا تو خیر کیا تھا کہ تنکے کی طرح ہوا کے ایک جھونکے سے اڑ سکتا تھا. صورتِحال یہ بنتی تھی کہ میں معاملہ رفع دفع کرانے لگتا, اِس کے باوجود بھی کہ میں جانتا تھا کہ دوست بِلا جواز اُسے چھیڑتے تھے, اور وہ چِڑنے کی بنا پر جلتی پر آگ کا کام کرتا تھا. اُس آگ کی لپٹیں خود کزن ہی کی طرف لپکتی تھیں. میں دوستوں کو بھی ناراض نہ کرنا چاھتا تھا اور کرن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا, اور اُس کو لڑائی مار کُٹائی سے بچانا چاھتا تھا۔ مگر کمال تھا کہ بات سمجھتا ھی نہ تھا۔

مگر اِس ساری بد مزاہ صورتِحال کے باوجود میں اور کمال ساتھ ساتھ پھرتے، باتیں کرتےاور مزے اُڑاتے۔

سکول سے زرا دور ھی "عوامی میلہ" لگا کرتا تھا، جسے "ھارس اینڈ کیٹل شو" بھی کہا جاتا تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ بچپن میں والد صاحب مجھے ھارس اینڈ کیٹل شو دکھانے لے جاتے. وہ لاھور کی بہاروں کی گلابی دن ہوتے تھے, جس کی ہوا میں بہاروں کی مہک اور ڈھنڈک کھلکھلاتی محسوس ہوتی تھی. نرم سرد سی دھوپ ۔۔۔ اور دور دور تک ریشم سی تہوں والی مدھم سی دُھند ۔۔۔ سب کچھ کتنا خواب سا لگتا تھا۔ مارچ کا مہنہ لاھور میں اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلواہ افروز ھوتا تھا۔ تب فوجی جوان موٹرسایکلوں پر کرتب دِکھاتے اور بعد میں "ٹی ٹو شو" بھی ھوتا۔

یہ میلہ فورٹرس اسٹیدیم میں منعقد ہوتا تھا اور اسٹیڈیم لاھور چھائونی شروع ہوتے ہی برلبِ مال روڈ پر آج بھی تمام تر جدت کے ساتھ موجود ہے. یہاں ہی سے لاھور ریلوئے اسٹیشن سے ٹرینیں چپکے سے مال روڈ پُل کے نیچے سے گزرتے ہوئے لاھور چھائونی اسٹیشن سے زن کر کے گزر جاتی ہیں. چھائونی اسٹیشن سے زرا ہی آگے, ریلوئے لائن زرا سے دور, ہائی سکول واقع تھا, جو آج بھی ہے. میں اور کمال دونوں پیدل چلتے ہوئےفورٹرس اسٹیڈیم جا پہنچتے اور میلے میں نِت نِت چیزیں دیکھتے.

ہماری زیادہ دلچسپی مختلف جانور اور پاکستان کی تہذیب اور کلچر کے اسٹال ہوا کرتے تھے. ہم چلتے جاتے اور اِدھر اُدھر دیکھتے جاتے. مجھے کمال کا تو معلوم نہیں, مگر میں چھوٹی بڑی مرغیوں کو دیکھ حیران ہو جاتا, اور سوچتا تھا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ مرغیوں کی نسل میں بہٹ بڑی مرغیاں اور پست قامت مرغیاں بھی شامل ہیں.

گائے اور بیل کس قدر پلے بڑھے ھوتے تھے, جیسے دیو قامت. مرغِیاں عام مرغیوں سے کئی گنا بڑی ھوتی تھیں۔ لوگ جوق در جوق میلے میں آتے۔ خوب خریداری ھوتی۔ میں چھوٹے چھوٹے رنگین چوزوں کو دیکھ کر پاگل ھو جاتا۔ میرا جی چاھتا کہ میں سارے چُوزے خرید لوں۔ ایک دفعہ جب میں کمال کے ساتھ میلے میں گیا تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے سکول فیس کی رقم سے چُوزے خرید لیئے۔ میں بہت خوش تھا، دو عدد رنگ برنگے چوزے۔ جب میں گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا کہ چوزے خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟، میں نے ڈرتے ڈرتے سب سچ سچ بتا دِیا۔ ماں نے واضح الفاظ میں کہہ دِیا کہ اب سکول کی فیس تو دوبارہ ملنے والی نہیں۔ ماں نے مجھے ڈراتے ہوئے کہا کہ اب سکول سے نام کٹے گا اور یہ کہ اب میں سکول نہیں جا سکوں گا. اِس طرح ان پڑھ رھ جائوں گا.

یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمیں نکل گئی. وہ دن بہت پریشان کُن تھے۔ سکول سے نام کٹ جانے کا خوف، نام کٹ جانے کا دُکھ. میں چوزوں کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ میں نے کیا کیا۔ کبھی چوزوں پر رحم آتا تو کبھی خود پر۔ میں اپنی چاھت پر تو شرمسار نہ تھا اور نہ ہی اُسے حماقت سے تعبیر کرتا تھا مگر اُس کے حصول کے طریقے پر ضرور دُکھ ھوتا تھا. میں سوچتا کہ کاش میں ایسا نہ کرتا، کاش میں اپنے والدین سے اِجازت لے لیتا اور اُن سے چوزے خریدنے کے لیئے علحدہ سے رقم مانگ لیتا۔ مگر اب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔ اب سکول سے نام کٹنے والا تھا۔۔۔ سزا کے دِن قریب تھے۔۔۔!
-------------
من موجی
-------------
6 جنوری
2013

image
Translate   2 years ago

چاند اور دھول
--------------
دسویں قسط
--------------
آدھی چھٹی ۔۔۔ ساری
-----------------
ھائی سکول لاھور چھاؤنی اسٹیشن کے نزدیک تھا۔ میں اپنے دوسرے کزنوں کے ساتھ گھر سے سکول کے لئے نکلتا اور پیدل پیدل سکول پہنچتا۔ یہ کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ بھاری بستوں کے ساتھ چلتے چلتے پورا وجود تھک جاتا۔ میں تو تھا بھی کمزور اور لاغر سا لڑکا۔ سکول پہنچتے ھی میرا سامنا ھائی کلاسز کے قوی ہیکل لڑکوں سے ھوتا، جو اِدھر اُدھر دوڑ بھاگ رھے ھوتے تھے۔ مجھے ناجانے کیوں یہ خطرہ لاحق ھو جاتا کہ کہیں کوئی لڑکا اِدھر اُدھر, دوڑتے بھاگتے مجھ سے ٹکرا نہ جائے, اور مجھے کوئی شدید چوٹ نہ لگ جائے.

پہلے پیریڈ سے ہی یوں احساس ھونے لگتا کہ میں کسی علاقہءغیر میں زبردستی بھیج دیا گیا ہوں۔ ٹیچر کے آنے سے پہلے کلاس میں شوروغوغاں پھیل جاتا۔ ایسے لگتا جیسے سارا ماحول مچھلی بازار بن گیا یو۔ ٹیچر کے وارد یونے پر پِن ڈراپ خاموشی یو جاتی. ایسے لگتا گویا دیواروں کو سانپ سونگھ گیا ہو, دیواروں نے سختی سے اپنے کان لپٹ لیے ہوں۔ مگر چند منٹوں بعد کہیں نہ کہیں سے کوئی چُٹکلی شرارت پھوٹ جاتی۔ اور دبے دبے قہقہوں کا طبلہ بجنے لگتا۔ ایسی حالت میں میں اور بھی پریشان ھونے لگتا کہ کہیں ٹیچر کا غضب شروع نہ ھو جائے ۔۔۔ کہیں غلطی سے ٹیچر شور مچانے والوں میرا شمار نہ کر لیں، اور یوں میں ٹیچر کے ہولناک ڈندوں کا شکار نہ بن جائوں۔

دن یوں ہی گذر جاتا۔ آدھی چھٹی کبھی ساری نہ یوتی۔ رِسیس میں کبھی کبھار یی میں کچھ کھاتا پیتا تھا۔ گھر سے تو لنچ مِلتا نہ تھا، بس بھوک بھاگ دوڑ میں ہی کہیں غائب یو جاتی۔ واپسی کا سفر اور بھی بھاری ہو جاتا۔ بھوک، شدید گرمی یا سردی، ہر صورت میں طویل پیدل فاصلہ اذیت ناک بن جاتا۔ گھر پہنچتے ہی دل چاہتا کہ کچھ اچھا سا کھانے کو مِل جائے, مگر اکثر میری پسندیدہ ڈش تیار نہ ہوتی. بہرکیف بادلِ نخواستہ زھر مار کرنا ہی پڑتا۔

شام ڈھلتے یی سکول سے مِلا ہوم ورک کرتے کرتے تھکاوٹ سے جسم چُور ہو جاتا۔ انگلیاں دُکھنے لگتیں.

گرمیوں کی شامیں کتنی اُداس یوتی تھیں۔ خاموش اور ڈل...سست رفتار۔ درخت چُپ چاپ یوں اداس کھڑے دکھائی دیتے جیسے کسی ازلی دکھ کا ماتم کر رہے ہوں ۔۔۔ سڑکیں ایسے دکھائی دیتیں جیسے صحرہ میں سِیاہ سانپ دور تک آڑا تِرچھا پڑا نحیف و نزار پڑس ہو۔ میرا دل چاھتا کہ کاش کہیں سے کوئی بادل کا ٹکرا اچانک نمودار ہو جائے اور گرمی اور حبس میں, بارش کی ٹھنڈی بوندوں کی یلغار شروع ہو جائے۔ اگرچہ مجھے بارش کوئی زیادہ پسند نہ تھی, مگر گرمی اور حبس میں کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا. نا جانے کیوں میں سمجھتا تھا کہ بارش کا موسم عارضی یوتا ھے، اصل امر حقیقت تو سورج ھے، جو ہر حال میں موجود رہتا ہے, جو ہمیشہ سے ہوتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود لاھور کی گرمی اِس قدر شدید ہوتی کہ جسم تازہ اور ٹھنڈی ہوا کو ترستا رہتا تھا. یہی وجہ تھی کہ بارش کی تمنا, دعائیں مانگتی رہتی۔

میں نئے سکول کے ماحول سے تھک چکا تھا۔ میں جان چکا تھا کہ آسودگی کوئی آسانی سے دستیاب ہونے والی شے نہیں. وہ راتیں جو حبس زدہ ہوتیں, اور جب آسمان پر دور دور تک چاند دِکھائی نہ دیتا, تو دل اور اُداس ہو جاتا.

اُس وقت میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ چاند صرف آسمان پر نہیں چمکتا، بلکہ یہ تو ایک احساس ھے, جو انسان کے اندر فطری طور پر رومانی کیفیت سے جنم لیتا ہے. سکول کے ماحول نے میرے وجود میں جیسے صحرا بھر دیا تھا. سانسوں کے درمیان گویا حبس سے گرم ہوا کے چھکڑ بگولے بن کر دوڑتے پھرتے تھے. اُن دِنوں پس یہی دل چاہتا تھا کہ کاش سکول نہ جانا پڑے, کسی طرح چھٹی ہو جائے, کوئی بہانہ بن جائے, شدید بارش ہو جائے کہ سکول سے چھٹی کا سبب پیدا ہو جائے. یا پھر اگر جانا بھی پڑے, کسی بھی وجہ سے سکول پہنچنے پر پتا چلے کہ یا تو آج چھٹی ہوگئی ہے یا آج "آدھی چھٹی ۔۔۔ ساری" ھو جائے گی ۔۔۔ مگر دل جانتا تھا بھلا ایسے کیسے ممکن ہے کیونکہ ایسا تو سال بھر میں شاید کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔
-------------
عمّاریاسر
-------------
30 دسمبر 2012

image
Translate   2 years ago

وہ
نوّیں قسط
--------------
چمکتی چاندنی ۔۔۔
-----------------
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ چاند کوئی خواب ھے جو صرف تصور میں دِکھائی دے سکتا ھے مگر اُس کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔ مگر میرے تحت الشعور میں چاند کا حصول ناممکن ہونے کے احساس کی وجہ سے ایک عشق بنتا جا رھا تھا, ایک جنون بنتا جا رھا تھا۔ میں کبھی کبھی اپنے ھاتھوں کی لکِروں کو دیکھتا، کبھی اپنے بے منزل اُٹھتے قدموں کو اور کبھی اُس دھول کو دیکھتا جو وقت اُڑا رھا تھا, اور سٹپٹا کر رھ جاتا۔ میری مامی اکثر میرے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر کہتیں تھیں کہ میں عشق کروں گا. اُس وقت مجھے عشق کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی کہ عشق کیا بلا ہوتی ہے.

پرائمری سکول سے پاس ھونے کے بعد ایک اور ستم یہ ھوا کہ مجھے ایک سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ پرائمری سکول اُردو میڈیم ھونے کے باوجود انگلش میڈیم ٹائپ تھا. انگلش لینگویج پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی. صاف ستھرا ماحول اور خواتین شفیق ٹیچرز تھیں. یہ سب مجھے نئے سکول میں زیادہ شدت سے یاد آتا تھا۔ ھائی سکول میں مرد اساتذہ طالبعلموں کو سُدھارنے کے لئے لکڑی کے موٹے ڈنڈوں کا استعمال کرتے تھے۔۔۔۔ وہ یہ سمجھتے تھے ڈنڈے کے استعمال سے شاید طالبعلم زیادہ تعبیدار اور زہین ہو جائیں گے. اگرچہ پرائمری سکول میں خواتین اساتذہ بھی ہاتھ کے ساتھ ساتھ سٹِک کا استعمال کرتی تھیں, مگر ایک حد تک اور باحالتِ مجبوری.

میرے حساب سے ہائی سکول کے مرد اساتذہ سفاک فرعونوں سے کم نہ تھے۔ زرا زرا سی بات پر ھاتھوں پر زور دار ڈندے کی بارش ایک معمول تھا۔ یوں معلوم ھوتا تھا کہ اساتذہ اپنے اندر کا غصہ بچوں پر نِکال رھے ھوں۔ اِس قوت سے ڈنڈا ھاتھ پر لگتا کہ جیسے ابھی گوشت ہڈیوں سے علیحدہ ھو کر زمین پر آرھے گا۔ جب دِل چاھتا تو پچوں کو مرغا بنا دِیا جاتا۔ بچوں کے ٹانگوں کے پٹھے کھچ جاتے اور بچے کسمساتے رھتے، کبھی اِس ٹانگ پر جسم کا بوجھ ڈالتے تو کبھی دوسری ٹانگ پر۔ اُن دنوں میری توجہ پڑھائی پر کم اور ڈنڈوں پر زیادہ رہتی. میں سارا دن اِسی خوف میں مبتلا رھتا۔ اپنے ھاتھوں اور اپنی عزت کو بچانے کی خاطر حد سے زیادہ خاموش رھتا اور اور کوشیش ہوتی کہ ہوم ورک وقت پر مُکمل ہو مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کوتاہی یا کمی رھ جاتی. ایسی صورت میں ڈنڈے کا ظالمانہ جادو چل ہی جاتا.

اِس تبدیلی میں ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ میرا ماموں زاد کزن کسی دوسرے انگریزی میڈیم میں داخل ھو چکا تھا۔ ماموں کے مالی حالات ہمارے حالات سے بہتر تھے. چناچہ وہ ایک ایسے سکول میں داخل ہوا جو بہترین عمارت پر مشتمل تھا, اور لاھور ایک نئے پوش علاقے شادمان میں واقع تھا. جہاں میں داخل تھا, وہ سکول لاھور کینٹ میں لاھور کینٹ سٹیشن سے زرا دور ریلوئے لائن سے نزدیک تھا. آتی جاتی ٹرینوں کا شور کانوں کو پھاڑتا, اور ریل انجنوں کے ہارن دیر تک کان میں گونجتے رہتے.

میرے والدین کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہ تھی کہ وہ کسی مہنگے سکول میں میرا داخلہ کرواتے. مجھے کوئی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے کا بہت چائو نہ تھا, اصل معاملہ ماحول کی تبدیلی تھی. پہلے سکول میں سارے بچے اُردو بولتے تھے, جبکہ ہائی سکول میں ایسی پنجابی بولی جاتی تھی جس میں 'ماں بہن' کی گالیاں کثرت سے استعمال ہوتی تھی. زو معنی لفظ, فقرے اور اِشارے ایک عام روّیہ تھے. پھر پرائمری سکول میں, میں اور میرا ماموں زاد کزن مل جُل کر کھیلتے تھے، اور اب نئے سکول میں, میں اکیلا یونہی لاتعلق سا گھومتا پھرتا رہتا. مجھے یوں لگتا تھا میں کیسی ایسے قید خانے میں ہوں جہاں سب مجھے سے مختلف ہیں.... جیسے کسی غیر سرزمیں پر قائم قید خانے میں مقامی ہولناک قیدیوں کے ہمراہ میں ڈرا سہما سب سے الگ ایک کونے میں قید... جیسے قید خانے کے قید خانے میں قید. یہاں مجھے سب کچھ خود ہی برداشت کرنا پڑ رھا تھا۔ اب تلخ دن تھے، گرمی، لمبے فاصلے، خاموشی اور پنجابی زبان میں ننگی گالم گلوچ کا ماحول۔

اب چاند کا تصور تو صرف رات تک ھی محدود ھو کر رہ گیا تھا۔ سیاہ آسمان، ٹمٹماتے سِتارے، خاموش چاند۔۔۔ اور وہ بھی کوسوں دور ۔۔۔۔

نئے سکول میں انجم عرف بھابھی، فردوس، رچرڈ پیٹرک اور مشرف میرے نئے دوست بنے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انجم کو لڑکے بھابھی کیوں کہتے تھے، جب کہ وہ اچھا بھلا مردانہ لڑکا تھا۔ بس اُس کی بھنوئیں خوبصورتی سے نسائی انداز سے خمیدہ تھیں, اور ناک ستواں. اٹھتا سفید مائل رنگ. جبکہ فردوس اپنے نام کی طرح کہیں نہ کہیں نسوانی جازبیت رکھتا تھا۔ مشرف گورا چٹا پڑھاکو لڑکا تھا۔ رچرڈ پیٹرک اپنے نام کی طرح انگریز نہ تھا بلکہ اُس کا رنگ خاصا سیاہی مائل تھا۔ مگر رچرڈ دل کا بہت گورا تھا, بہت شفیق, دوستانہ اور ہنس مُکھ.

دوستی ھونے کے باوجود بھی میں اُن سب کے ساتھ گُھل مل نہ سکا۔ کہیں نہ کہیں ایک ایسا خلاء تھا جو مجھے مجمعے میں اکیلا کیئے ہوئے تھا. شاید ایک وجہ میرا پنجابی ھونے کی باوجود پرائمری سکول اور گھر کے ادبی ماحول کی وجہ سے لاھوری پنجابی زبان فرفر نہ بول سکنا تھا، اِس لیئے زیادہ تر خاموش رھتا تھا.

کہیں نہ کہیں سے خاموشی اور اُداسی میرے اندر وجود میں پوشیدہ تھی، میرے وجود کاحصہ تھی ۔۔۔ میری شخصیت کا جز بن گئی تھی، اور اُس خاموش شخصیت میں صرف ایک ہی چہکار تھی، چاند کی چاندنی، جو کہیں نہ کہیں میری آنکھوں میں خواب بن کر چمکتی رھتی تھی ۔۔۔! (جاری ہے)
-------------
عمّاریاسر
26 دسمبر 2012

image
Translate   2 years ago

وہ
-----------
آٹھویں قسط
-------------
چاند کا لِمس ۔۔۔
----------
وقت پر لگا کر اُڑ جاتا۔ موسم بدل جاتا۔ لاھور سرد ھونے لگتا، سرد سے سرد ترین۔ یوں لگتا کہ سارا لاھور سرد ھواؤں میں جکڑا چلا جا رھا ھے۔ درخت صبح کو دھند سے یوں چُپ کھڑے محسوس ہوتے گویا دھند سے بھاری ہو کر اپنی شاخیں لٹکائے بے بسی سے کھڑے ہیں. پرندے بڑی سرعت سے اڑان بھرتے اور پھر کسی درخت کی گھنی شاخوں جا چھپتے یا پھر کسی عمارت کے کونے کھدرے میں جا گھستے.

یخ بستہ ھوائیں اور پت جھڑ کی خاموشی ماحول کو اداس کر دیتی. کسی بھی موسم کی شدت حد سے زیادہ ہو کر اپنا قدرتی حُسن ماند کر دیتی ہے. یہی کچھ سرد موسم میں مجھے زیادہ محسوس ہوتا تھا.

میں سرد ھوا اور دھند میں بازو سُکیڑے سکول میں سارا دن کھویا کھویا رھتا۔ مجھے سرد موسم سے نفرت تھی۔ چہرے اور ھاتھوں پر خشکی ھو جاتی۔ ھونٹ پھٹ جاتے۔ دن سہ پہر کے بعد بھاگنے لگتا اور رات موسم کی شدت میں چُپ چاپ سی ھو جاتی۔

ہمارا گھر قیامِ پاکستان سے قبل کا تعمیر شدہ تھا. چُونے کے سمینٹ سے تعمیر کی گئی دو ڈھائی فٹ چوڑی دیواریں, اونچے اونچے کمرے, چپس سے بنائے گئے باکمال ڈیزائن دار فرش اور کشادہ صحن اُس گھر کو منفرد بنا دیتے تھے. کہا جاتا تھا کہ یہ ڈیوپلیکس گھر دو سکھ بھائیوں نے بنوایا تھا. یعنی ایک پورشن ایک سکھ بھائی کا تھا, دوسرا پورشن دوسرے بھائی کا. ہمارا پورشن دو سڑکوں کے سنگم کے کونے پر واقع تھا. قیامِ پاکستان آباواجداد نے یہیں ڈیرہ جمایا. ہم ایک پورشن میں رہتے تھے.

جب صبح کو سورج پوری آب وتاب سے نکلتا اور آسمان بھی صاف ھوتا, بادلوں سے اٹا نہ ہوتا, اور سرد ہوائیں جسم کو ٹِھٹھرا نہ رہی ہوتیں, تو میرے لیے سکول کا راستہ آسان ھو جاتا۔ مگر اگر آسمان بادلوں سے بھرا ہوتا تو سردی میں مزید اضافہ ہو جاتا.

سکول سے نزدیک ایک بنگلے میں کچھ انگریز رھا کرتے تھے۔ سکول سے واپسی پر اُن پر اچٹتی سی نگاہ پڑ جاتی اور میں حیران رھ جاتا کہ اتنی سردی میں وہ انگریز عورتیں زیر جامہ دو کپڑوں میں چمکدار سڈول جسم کے ساتھ دھوپ کیوں سینکتی رھتیں ہیں؟ میں سوچتا رھ جاتا کہ کیا اُن کو سردی نہیں لگتی۔ وہ عورتیں برآمدے کی دیوار کی اوٹ سی لے کر نیم دراز ھو کر آنکھیں موندے لیٹی رھتٰیں۔ میں یہی سوچتے سوچتے اپنی راہ لیتا۔

ناجانے کیوں میرا دل چاہتا کہ کاش میں اُس بنگلے میں جا کر اُن عورتوں سے پوچھ سکوں کہ آخر اُنہیں سردی کیوں نہیں لگتی۔ ابھی میں لمس اور گداز احساسات کا مطلب نہیں جانتا تھا، مگر ناجانے کیوں مجھے اُنہیں دیکھ کر ایک انجانہ سا احساس ہوتا تھا۔ اُن کا سڈول جسم آئل کے لگانے سے سورج کی دھوپ میں چمک رہا ہوتا تھا, بالکل جیسے تانبا دھوپ میں چمکتا دکھائی دیتا ہے.

سرد موسم میں اپنی سانولی خشک پھٹی رنگت اور جِلد کو دیکھ کر مجھے وہ انگریز عورتیں کوئی آسمان سے اتری مخمل سے بنی مخلوق دکھائی دیتی تھیں, اور وہ بنگلہ جادوائی خاموشی میں محصور محسوس ہوتا تھا۔ ایک ایسا گھر جہاں کسی اور ہی دنیا کے باسی رھتے ھوں، بالکل الگ تھلگ, اپنے اِرد گِرد کے ماحول سے ناآشنا. وہ اجنبی عورتیں جل پریاں دکھائی دیتی تھیں گویا دھوپ سینکنے سمندر کے کنارے پر آ لیٹتی ہوں. اُن کا جسم بالکل چاند کی طرح چمکتا محسوس ہوتا تھا. وہ طلسماتی پریاں رنگیں خوشبودار ربڑ کی طرح فسوں کار لگتی تھیں, جیسے میرے لیئے نبیلہ تھی, معصوم سی, اجنبی سی, بہت دور, ناقابلِ حصول۔۔۔ جیسے چاند مجھ سے دور تھا ۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔ کسی اور ہی دنیا میں ....
--------------
عمّاریاسر
29 نومبر
2012

image
Translate   2 years ago

وہ
---------
"ساتویں قسط"
--------
خوشبو والی ربڑ، نبیلہ اور چاند۔۔۔
------------------
مجھے وہ ربڑ، یعنی اریزر ابھی تک یاد تھی جو بچپن میں میرے ساتھی طالبعلم اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ کتنی خوشبو تھی اُس میں۔ ایک عجیب خوشبو۔۔۔۔ وہ خوشبو میرے حواس پر چھا جاتی تھی۔ دو رنگوں سے مرصع وہ ربڑ سکول بیگ کو مہکا سا دیتی تھِی ۔۔۔۔ سفید اور سبز، یا اورینج اور سفید ۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ دنیا کی سب سے خوبصورت شے وہ ربڑ ہی تھی۔ میں یہ جاننے سے قاصر تھا کہ آخر اُس ربڑ میں کیا تھا جو مجھے اپنی طرف راغب کرتا تھا۔

معصوم سوچوں میں چاند تو نبیلہ بھی تھی، جو ذہین بھی تھی خوبصورت بھی۔ وہ پرائمری سکول میں میری کلاس فیلو تھی. نبیلہ کلاس میں ھمیشہ فرسٹ آتی تھی۔ وہ سکول کے مین گیٹ پر ایک بڑی سی کارسے اترتی تھی۔ میرے لیے وہ ایک لطیف جادو کی پُڑیا تھی ۔۔۔۔۔ حسیں، جمیل خاموش سی, نازک سی۔ میں اُن احساسات کو رومانوی رنگ نہیں کہہ سکتا۔ یہ احساسات بالکل ویسے ہی تھے، جیسے بچپن میں کوئی طالبِ علم اپنے ٹیچر کو پسند کرتا ہے، کیونکہ وہ اُنہیں رہنمائی دیتا ہے۔ جب بچہ پرائمری سکول تک پہنچتا ہے تو اُس کے لیئے شعور کے ساتھ دنیا دیکھنے کا نیا نیا تجربہ یا مشاہدہ شروع ہوتا ہے۔ وہ ماں باپ، بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ, پہلی دفعہ نئے تعلقات سے واقف ہو رہا ہوتا ہے۔ میرے لیئے بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال تھی۔ یہ نئی واقفیت سماجی تعلقات ضرور تھے۔ مگر عمر کے اِس دور میں اِن معاملات کا بچے کو علم نہیں ہوتا۔ بچہ ہر کسی سے اتنی جلدی گھلتا مِلتا نہیں، بلکہ جھجھک آڑے آجاتی ہے۔ پھر میں تو ویسے ہی غیروں کے سامنے کم گو سا رہتا تھا۔ میں دیکھتا تھا کئی بچے اِدھر اُدھر یوں چھلانگیں مارتے پھرتے تھے، جیسے گھر کا صحن ہو، بلکہ یوں لگتا تھا گویا گھر سے رہا ہو کر آئے ہوں۔ اسی بنا پر میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کوئی بہت گھلتا ملتا نہیں تھا, تاہم کسی کونے میں پڑا فالتو رف کاغذ بھی نہ تھا.

میرے اندر ہی اندر، شاید ایک احساسِ کمتری پوشیدہ تھی۔ یہ احساسِ کمتری ہر اُس جگہ ایک رکاوٹ کی طرح آ کر کھڑی ہوتی تھی، جہاں سے زات کا اظہار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی میں خود کو دوسروں کے مقابلے کا اہل نہیں سمجھتا تھا۔ اِس کیفیت نے مجھے سامع تو بہت اچھا بنا دیا مگر مقرر ہونے کی صلاحیت کو دبا سا دیا۔ گویا کسی کو بولتے ہوئے سننا عادت بن گئی، مگر اندر کے ردِعمل یا اُس کے اظہار کو زبان نہ مل سکی۔ خیالات اندر ہی اندر دفن ہونا شروع ہوگئے۔ میرے اندر سوچیں جمع ہونا شروع ہو گئِں، خیالات پیدا ہو کر، تبدیل بھی ہو جاتے اور رد بھی ہو جاتے، گویا میں نے اپنے اندر ایک دنیا بنا لی، اپنی مرضی کی دنیا۔

خیالات کہیں نہ کہیں درد کے نوحے بن گئے,ماتم بن گئے, مگر چٹانوں سے پٹختے پٹختے تخلیقی ہو گئے. ساحلوں کی چٹانیں لہروں کے مسلسل ٹکرائو سے خوبصورت تراش خراش سے خوبصورت ہوتی چلی گئیں. ساحل پر خود رو پھول دار جھاڑیاں پنپنے لگیں. درخت اور پیڑ خود رو انداز سے نشو نما پانے لگے, اور دور دور سے خوبصورت اور دل موہ لینے والی آوازوں والے رنگین پرندے اندرونی ماحول کو خوبصورت بنانے لگے. اِس اندر کی دنیا میں گونگے لفظ ترنم کی شبنم بنتے چلے گئے. اِن احساسات نے میری باریک انگلیوں میں فن کاری بو دی, اور میں بہترین اور قابلِ تعریف سکیچ اور ڈرائینگ بنانے لگا.

اِس دنیا میں خوشبو والی ربڑ بھی تھی اور نبیلہ بھی۔ اب مجھے نبیلہ سے بات کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی، اور نہ رِسیس یا بریک میں اُس کے ساتھ کھیلنے کی خواہش کروٹیں بدلتی تھی۔ مگر اِس کے باوجود باہر کی دنیا کی حقیقت مجھے تکلیف ضرور دیتی تھی، اور بے چینی بھی. میں سوچنے لگتا کہ کاش میرے پاس بھی خوشبو والی ربڑ ھوتی، نبیلہ مجھ سے بھی بات کِیا کرتی، جیسے دوسرے لڑکوں اور لڑکیوں سے باتیں کرتی تھی اور کھیلتی تھی خاص طور پر اسد سے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے اندر کی دنیا مضبوط ہوتی چلی گئی۔ میرے اندر خیالات اور خواہشات کے بے شمار سمندر بننے لگے۔ یہ خیالات کہیں نہ کہیں درد کے نوحے بن گئے، ماتم بن گئے۔

درحقیقت نبیلہ ایک استعارہ تھی، اور یہ استعارہ چاند کا روپ دھارے رہتا تھا۔ جب وہ سب سے ہنستی کھیلتی باتیں کرتی، اور مجھے دیکھتی تک نہ تھی، بلکہ شاید اُسے احساس بھی نہیں تھا کہ میں اُس کے بارے میں کیا سوچتا ہوں، تو میرے اندر درد کے پھوڑے ٹوٹتے پھوٹتے رہتے۔ میں چپ چاپ غیر محسوس طریقے سے ہی سب کچھ برداشت کرتا رھتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرے دل میں کوئی چاند کھو گیا ہو ... اُداسی نے گھر بنا لیا ہو ... جیسےلاھور کی گرم شاموں میں مغرب کے بعد چاند نکلتا ھی نہ ہو۔ لاھور کی اُداس، گرم تپتی شامیں کتنی خاموش ھوتیں تھیں۔ درخت خاموشی اُڑھ کر اُداس کھڑے دِکھائی دیتے تھے کہ جیسے شام کے انجانے جھٹپٹے میں کوئی غیرمتوقع خبر سُن کر سکتے کا شکار ھو گیا ھو

رات کو باھر صحن میں لیٹے لیٹے میں ٹھنڈی چادر پر ٹانگیں پسارے پسارے چاند کو آسمان پر تلاشتے تلاشتے سو جاتا۔ مجھے یوں لگتا گویا چاند میرے بہت قریب فضاء میں اُتر آیا ھو ۔۔۔ اور اپنی چاندنی کی ٹھندک سے مجھے سکون بہم پہنچا رہا ہو۔ آسمان کے سارے ستارے نغمگاں ہو گئے ہوں ۔۔۔ پھر کھلے صحن میں رات کی رانی کی خوشبو لٹانے لگتی ۔۔۔۔ اور وہ خوشبو میرے پاس مجسم ہو کر آ کھڑی ہوتی ۔۔۔۔ پھر یوں لگتا کہ میرے تھکے ہارے وجود سے خوشبو والی ربڑ نے حجم میں پھیل کر, لِپٹ کر ساری اُداسی اتار دی ہو، وہ لطیف احساس سکون پرور ہو جاتا ۔۔۔ اور تب اندر کی دنیا میں قید سارے احساس مسکرانے لگتے۔۔۔ ساری اداسِیاں قسمیں کھانے لگتیں کہ اب کبھی اندھی خاموشی کا موجب نہ بنیں گی، اور یہ کہ اب کبھی جدائی نہ ھو گی۔ چاند پہلو میں اُتر آتا۔

"بھِن ۔۔۔ بھِن ۔۔۔۔ بھِن ۔۔۔۔ بھِن" صبح ھوتے ھی مکھیوں کا انبار اُمند آتا اور چہرے پر براجمان ھونے کا جتن کرتا۔۔۔ رات کی بساط پر بچھایا گیا سارا طلسم اور سحر ٹوٹ جاتا۔۔۔ خوشبو والی ربڑ، نبیلہ اور چاند۔۔۔ سب "بھِن بھن" کی کرخت آوازوں میں کہیں گم ہو جاتے یا کہیں اور چلے جاتے۔

پھر ماں کی آواز سناءی دیتی " اُٹھ جائو بیٹا ۔۔۔۔ سکول سے دیر ھوجاے گی۔۔۔"

۔۔ اور میرا دل یونہی بوجھل سا ہو کر متلانے لگتا۔
--------------
عمّاریاسر
29 اکتوبر
2012

image