وہ
-----------
آٹھویں قسط
-------------
چاند کا لِمس ۔۔۔
----------
وقت پر لگا کر اُڑ جاتا۔ موسم بدل جاتا۔ لاھور سرد ھونے لگتا، سرد سے سرد ترین۔ یوں لگتا کہ سارا لاھور سرد ھواؤں میں جکڑا چلا جا رھا ھے۔ درخت صبح کو دھند سے یوں چُپ کھڑے محسوس ہوتے گویا دھند سے بھاری ہو کر اپنی شاخیں لٹکائے بے بسی سے کھڑے ہیں. پرندے بڑی سرعت سے اڑان بھرتے اور پھر کسی درخت کی گھنی شاخوں جا چھپتے یا پھر کسی عمارت کے کونے کھدرے میں جا گھستے.

یخ بستہ ھوائیں اور پت جھڑ کی خاموشی ماحول کو اداس کر دیتی. کسی بھی موسم کی شدت حد سے زیادہ ہو کر اپنا قدرتی حُسن ماند کر دیتی ہے. یہی کچھ سرد موسم میں مجھے زیادہ محسوس ہوتا تھا.

میں سرد ھوا اور دھند میں بازو سُکیڑے سکول میں سارا دن کھویا کھویا رھتا۔ مجھے سرد موسم سے نفرت تھی۔ چہرے اور ھاتھوں پر خشکی ھو جاتی۔ ھونٹ پھٹ جاتے۔ دن سہ پہر کے بعد بھاگنے لگتا اور رات موسم کی شدت میں چُپ چاپ سی ھو جاتی۔

ہمارا گھر قیامِ پاکستان سے قبل کا تعمیر شدہ تھا. چُونے کے سمینٹ سے تعمیر کی گئی دو ڈھائی فٹ چوڑی دیواریں, اونچے اونچے کمرے, چپس سے بنائے گئے باکمال ڈیزائن دار فرش اور کشادہ صحن اُس گھر کو منفرد بنا دیتے تھے. کہا جاتا تھا کہ یہ ڈیوپلیکس گھر دو سکھ بھائیوں نے بنوایا تھا. یعنی ایک پورشن ایک سکھ بھائی کا تھا, دوسرا پورشن دوسرے بھائی کا. ہمارا پورشن دو سڑکوں کے سنگم کے کونے پر واقع تھا. قیامِ پاکستان آباواجداد نے یہیں ڈیرہ جمایا. ہم ایک پورشن میں رہتے تھے.

جب صبح کو سورج پوری آب وتاب سے نکلتا اور آسمان بھی صاف ھوتا, بادلوں سے اٹا نہ ہوتا, اور سرد ہوائیں جسم کو ٹِھٹھرا نہ رہی ہوتیں, تو میرے لیے سکول کا راستہ آسان ھو جاتا۔ مگر اگر آسمان بادلوں سے بھرا ہوتا تو سردی میں مزید اضافہ ہو جاتا.

سکول سے نزدیک ایک بنگلے میں کچھ انگریز رھا کرتے تھے۔ سکول سے واپسی پر اُن پر اچٹتی سی نگاہ پڑ جاتی اور میں حیران رھ جاتا کہ اتنی سردی میں وہ انگریز عورتیں زیر جامہ دو کپڑوں میں چمکدار سڈول جسم کے ساتھ دھوپ کیوں سینکتی رھتیں ہیں؟ میں سوچتا رھ جاتا کہ کیا اُن کو سردی نہیں لگتی۔ وہ عورتیں برآمدے کی دیوار کی اوٹ سی لے کر نیم دراز ھو کر آنکھیں موندے لیٹی رھتٰیں۔ میں یہی سوچتے سوچتے اپنی راہ لیتا۔

ناجانے کیوں میرا دل چاہتا کہ کاش میں اُس بنگلے میں جا کر اُن عورتوں سے پوچھ سکوں کہ آخر اُنہیں سردی کیوں نہیں لگتی۔ ابھی میں لمس اور گداز احساسات کا مطلب نہیں جانتا تھا، مگر ناجانے کیوں مجھے اُنہیں دیکھ کر ایک انجانہ سا احساس ہوتا تھا۔ اُن کا سڈول جسم آئل کے لگانے سے سورج کی دھوپ میں چمک رہا ہوتا تھا, بالکل جیسے تانبا دھوپ میں چمکتا دکھائی دیتا ہے.

سرد موسم میں اپنی سانولی خشک پھٹی رنگت اور جِلد کو دیکھ کر مجھے وہ انگریز عورتیں کوئی آسمان سے اتری مخمل سے بنی مخلوق دکھائی دیتی تھیں, اور وہ بنگلہ جادوائی خاموشی میں محصور محسوس ہوتا تھا۔ ایک ایسا گھر جہاں کسی اور ہی دنیا کے باسی رھتے ھوں، بالکل الگ تھلگ, اپنے اِرد گِرد کے ماحول سے ناآشنا. وہ اجنبی عورتیں جل پریاں دکھائی دیتی تھیں گویا دھوپ سینکنے سمندر کے کنارے پر آ لیٹتی ہوں. اُن کا جسم بالکل چاند کی طرح چمکتا محسوس ہوتا تھا. وہ طلسماتی پریاں رنگیں خوشبودار ربڑ کی طرح فسوں کار لگتی تھیں, جیسے میرے لیئے نبیلہ تھی, معصوم سی, اجنبی سی, بہت دور, ناقابلِ حصول۔۔۔ جیسے چاند مجھ سے دور تھا ۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔ کسی اور ہی دنیا میں ....
--------------
عمّاریاسر
29 نومبر
2012

image