چاند اور دھول
--------------
دسویں قسط
--------------
آدھی چھٹی ۔۔۔ ساری
-----------------
ھائی سکول لاھور چھاؤنی اسٹیشن کے نزدیک تھا۔ میں اپنے دوسرے کزنوں کے ساتھ گھر سے سکول کے لئے نکلتا اور پیدل پیدل سکول پہنچتا۔ یہ کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ بھاری بستوں کے ساتھ چلتے چلتے پورا وجود تھک جاتا۔ میں تو تھا بھی کمزور اور لاغر سا لڑکا۔ سکول پہنچتے ھی میرا سامنا ھائی کلاسز کے قوی ہیکل لڑکوں سے ھوتا، جو اِدھر اُدھر دوڑ بھاگ رھے ھوتے تھے۔ مجھے ناجانے کیوں یہ خطرہ لاحق ھو جاتا کہ کہیں کوئی لڑکا اِدھر اُدھر, دوڑتے بھاگتے مجھ سے ٹکرا نہ جائے, اور مجھے کوئی شدید چوٹ نہ لگ جائے.

پہلے پیریڈ سے ہی یوں احساس ھونے لگتا کہ میں کسی علاقہءغیر میں زبردستی بھیج دیا گیا ہوں۔ ٹیچر کے آنے سے پہلے کلاس میں شوروغوغاں پھیل جاتا۔ ایسے لگتا جیسے سارا ماحول مچھلی بازار بن گیا یو۔ ٹیچر کے وارد یونے پر پِن ڈراپ خاموشی یو جاتی. ایسے لگتا گویا دیواروں کو سانپ سونگھ گیا ہو, دیواروں نے سختی سے اپنے کان لپٹ لیے ہوں۔ مگر چند منٹوں بعد کہیں نہ کہیں سے کوئی چُٹکلی شرارت پھوٹ جاتی۔ اور دبے دبے قہقہوں کا طبلہ بجنے لگتا۔ ایسی حالت میں میں اور بھی پریشان ھونے لگتا کہ کہیں ٹیچر کا غضب شروع نہ ھو جائے ۔۔۔ کہیں غلطی سے ٹیچر شور مچانے والوں میرا شمار نہ کر لیں، اور یوں میں ٹیچر کے ہولناک ڈندوں کا شکار نہ بن جائوں۔

دن یوں ہی گذر جاتا۔ آدھی چھٹی کبھی ساری نہ یوتی۔ رِسیس میں کبھی کبھار یی میں کچھ کھاتا پیتا تھا۔ گھر سے تو لنچ مِلتا نہ تھا، بس بھوک بھاگ دوڑ میں ہی کہیں غائب یو جاتی۔ واپسی کا سفر اور بھی بھاری ہو جاتا۔ بھوک، شدید گرمی یا سردی، ہر صورت میں طویل پیدل فاصلہ اذیت ناک بن جاتا۔ گھر پہنچتے ہی دل چاہتا کہ کچھ اچھا سا کھانے کو مِل جائے, مگر اکثر میری پسندیدہ ڈش تیار نہ ہوتی. بہرکیف بادلِ نخواستہ زھر مار کرنا ہی پڑتا۔

شام ڈھلتے یی سکول سے مِلا ہوم ورک کرتے کرتے تھکاوٹ سے جسم چُور ہو جاتا۔ انگلیاں دُکھنے لگتیں.

گرمیوں کی شامیں کتنی اُداس یوتی تھیں۔ خاموش اور ڈل...سست رفتار۔ درخت چُپ چاپ یوں اداس کھڑے دکھائی دیتے جیسے کسی ازلی دکھ کا ماتم کر رہے ہوں ۔۔۔ سڑکیں ایسے دکھائی دیتیں جیسے صحرہ میں سِیاہ سانپ دور تک آڑا تِرچھا پڑا نحیف و نزار پڑس ہو۔ میرا دل چاھتا کہ کاش کہیں سے کوئی بادل کا ٹکرا اچانک نمودار ہو جائے اور گرمی اور حبس میں, بارش کی ٹھنڈی بوندوں کی یلغار شروع ہو جائے۔ اگرچہ مجھے بارش کوئی زیادہ پسند نہ تھی, مگر گرمی اور حبس میں کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا. نا جانے کیوں میں سمجھتا تھا کہ بارش کا موسم عارضی یوتا ھے، اصل امر حقیقت تو سورج ھے، جو ہر حال میں موجود رہتا ہے, جو ہمیشہ سے ہوتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود لاھور کی گرمی اِس قدر شدید ہوتی کہ جسم تازہ اور ٹھنڈی ہوا کو ترستا رہتا تھا. یہی وجہ تھی کہ بارش کی تمنا, دعائیں مانگتی رہتی۔

میں نئے سکول کے ماحول سے تھک چکا تھا۔ میں جان چکا تھا کہ آسودگی کوئی آسانی سے دستیاب ہونے والی شے نہیں. وہ راتیں جو حبس زدہ ہوتیں, اور جب آسمان پر دور دور تک چاند دِکھائی نہ دیتا, تو دل اور اُداس ہو جاتا.

اُس وقت میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ چاند صرف آسمان پر نہیں چمکتا، بلکہ یہ تو ایک احساس ھے, جو انسان کے اندر فطری طور پر رومانی کیفیت سے جنم لیتا ہے. سکول کے ماحول نے میرے وجود میں جیسے صحرا بھر دیا تھا. سانسوں کے درمیان گویا حبس سے گرم ہوا کے چھکڑ بگولے بن کر دوڑتے پھرتے تھے. اُن دِنوں پس یہی دل چاہتا تھا کہ کاش سکول نہ جانا پڑے, کسی طرح چھٹی ہو جائے, کوئی بہانہ بن جائے, شدید بارش ہو جائے کہ سکول سے چھٹی کا سبب پیدا ہو جائے. یا پھر اگر جانا بھی پڑے, کسی بھی وجہ سے سکول پہنچنے پر پتا چلے کہ یا تو آج چھٹی ہوگئی ہے یا آج "آدھی چھٹی ۔۔۔ ساری" ھو جائے گی ۔۔۔ مگر دل جانتا تھا بھلا ایسے کیسے ممکن ہے کیونکہ ایسا تو سال بھر میں شاید کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔
-------------
عمّاریاسر
-------------
30 دسمبر 2012

image