من موجی
.................
چاند اور دھول
11 ویں قسط
--------------
دیوانگی کی سزا
-----------------
ایک سال بعد ہی میرا کا کزن میرے سکول میں آگیا کیونکہ وہ انگریزی/انگلش میڈیم سکول میں تعلیمی لحاظ سے ایڈجسٹ نہ ھو پایا تھا۔ اب میرے لیئے سب آسان ھو چُکا تھا۔ مگر ساتھ ھی ایک نئی مصیبت پیدا ھو گئی۔ میرا کزن بہت غصیلہ تھا اور اِسی وجہ سے اور بے ربط رویوں کی بُنا پر دوستوں کے مذاق کا نشانہ بنتا اور پھر وہ جھنجھلا کر اُن سے لڑنے پر تُل جاتا, اِس کے باوجود کہ وہ مقابل لڑکوں کی.نسبت زیادہ طاقتور نہ تھا. میرا تو خیر کیا تھا کہ تنکے کی طرح ہوا کے ایک جھونکے سے اڑ سکتا تھا. صورتِحال یہ بنتی تھی کہ میں معاملہ رفع دفع کرانے لگتا, اِس کے باوجود بھی کہ میں جانتا تھا کہ دوست بِلا جواز اُسے چھیڑتے تھے, اور وہ چِڑنے کی بنا پر جلتی پر آگ کا کام کرتا تھا. اُس آگ کی لپٹیں خود کزن ہی کی طرف لپکتی تھیں. میں دوستوں کو بھی ناراض نہ کرنا چاھتا تھا اور کرن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا, اور اُس کو لڑائی مار کُٹائی سے بچانا چاھتا تھا۔ مگر کمال تھا کہ بات سمجھتا ھی نہ تھا۔

مگر اِس ساری بد مزاہ صورتِحال کے باوجود میں اور کمال ساتھ ساتھ پھرتے، باتیں کرتےاور مزے اُڑاتے۔

سکول سے زرا دور ھی "عوامی میلہ" لگا کرتا تھا، جسے "ھارس اینڈ کیٹل شو" بھی کہا جاتا تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ بچپن میں والد صاحب مجھے ھارس اینڈ کیٹل شو دکھانے لے جاتے. وہ لاھور کی بہاروں کی گلابی دن ہوتے تھے, جس کی ہوا میں بہاروں کی مہک اور ڈھنڈک کھلکھلاتی محسوس ہوتی تھی. نرم سرد سی دھوپ ۔۔۔ اور دور دور تک ریشم سی تہوں والی مدھم سی دُھند ۔۔۔ سب کچھ کتنا خواب سا لگتا تھا۔ مارچ کا مہنہ لاھور میں اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلواہ افروز ھوتا تھا۔ تب فوجی جوان موٹرسایکلوں پر کرتب دِکھاتے اور بعد میں "ٹی ٹو شو" بھی ھوتا۔

یہ میلہ فورٹرس اسٹیدیم میں منعقد ہوتا تھا اور اسٹیڈیم لاھور چھائونی شروع ہوتے ہی برلبِ مال روڈ پر آج بھی تمام تر جدت کے ساتھ موجود ہے. یہاں ہی سے لاھور ریلوئے اسٹیشن سے ٹرینیں چپکے سے مال روڈ پُل کے نیچے سے گزرتے ہوئے لاھور چھائونی اسٹیشن سے زن کر کے گزر جاتی ہیں. چھائونی اسٹیشن سے زرا ہی آگے, ریلوئے لائن زرا سے دور, ہائی سکول واقع تھا, جو آج بھی ہے. میں اور کمال دونوں پیدل چلتے ہوئےفورٹرس اسٹیڈیم جا پہنچتے اور میلے میں نِت نِت چیزیں دیکھتے.

ہماری زیادہ دلچسپی مختلف جانور اور پاکستان کی تہذیب اور کلچر کے اسٹال ہوا کرتے تھے. ہم چلتے جاتے اور اِدھر اُدھر دیکھتے جاتے. مجھے کمال کا تو معلوم نہیں, مگر میں چھوٹی بڑی مرغیوں کو دیکھ حیران ہو جاتا, اور سوچتا تھا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ مرغیوں کی نسل میں بہٹ بڑی مرغیاں اور پست قامت مرغیاں بھی شامل ہیں.

گائے اور بیل کس قدر پلے بڑھے ھوتے تھے, جیسے دیو قامت. مرغِیاں عام مرغیوں سے کئی گنا بڑی ھوتی تھیں۔ لوگ جوق در جوق میلے میں آتے۔ خوب خریداری ھوتی۔ میں چھوٹے چھوٹے رنگین چوزوں کو دیکھ کر پاگل ھو جاتا۔ میرا جی چاھتا کہ میں سارے چُوزے خرید لوں۔ ایک دفعہ جب میں کمال کے ساتھ میلے میں گیا تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے سکول فیس کی رقم سے چُوزے خرید لیئے۔ میں بہت خوش تھا، دو عدد رنگ برنگے چوزے۔ جب میں گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا کہ چوزے خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟، میں نے ڈرتے ڈرتے سب سچ سچ بتا دِیا۔ ماں نے واضح الفاظ میں کہہ دِیا کہ اب سکول کی فیس تو دوبارہ ملنے والی نہیں۔ ماں نے مجھے ڈراتے ہوئے کہا کہ اب سکول سے نام کٹے گا اور یہ کہ اب میں سکول نہیں جا سکوں گا. اِس طرح ان پڑھ رھ جائوں گا.

یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمیں نکل گئی. وہ دن بہت پریشان کُن تھے۔ سکول سے نام کٹ جانے کا خوف، نام کٹ جانے کا دُکھ. میں چوزوں کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ میں نے کیا کیا۔ کبھی چوزوں پر رحم آتا تو کبھی خود پر۔ میں اپنی چاھت پر تو شرمسار نہ تھا اور نہ ہی اُسے حماقت سے تعبیر کرتا تھا مگر اُس کے حصول کے طریقے پر ضرور دُکھ ھوتا تھا. میں سوچتا کہ کاش میں ایسا نہ کرتا، کاش میں اپنے والدین سے اِجازت لے لیتا اور اُن سے چوزے خریدنے کے لیئے علحدہ سے رقم مانگ لیتا۔ مگر اب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔ اب سکول سے نام کٹنے والا تھا۔۔۔ سزا کے دِن قریب تھے۔۔۔!
-------------
من موجی
-------------
6 جنوری
2013

image