وہ
نوّیں قسط
--------------
چمکتی چاندنی ۔۔۔
-----------------
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ چاند کوئی خواب ھے جو صرف تصور میں دِکھائی دے سکتا ھے مگر اُس کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔ مگر میرے تحت الشعور میں چاند کا حصول ناممکن ہونے کے احساس کی وجہ سے ایک عشق بنتا جا رھا تھا, ایک جنون بنتا جا رھا تھا۔ میں کبھی کبھی اپنے ھاتھوں کی لکِروں کو دیکھتا، کبھی اپنے بے منزل اُٹھتے قدموں کو اور کبھی اُس دھول کو دیکھتا جو وقت اُڑا رھا تھا, اور سٹپٹا کر رھ جاتا۔ میری مامی اکثر میرے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر کہتیں تھیں کہ میں عشق کروں گا. اُس وقت مجھے عشق کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی کہ عشق کیا بلا ہوتی ہے.

پرائمری سکول سے پاس ھونے کے بعد ایک اور ستم یہ ھوا کہ مجھے ایک سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ پرائمری سکول اُردو میڈیم ھونے کے باوجود انگلش میڈیم ٹائپ تھا. انگلش لینگویج پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی. صاف ستھرا ماحول اور خواتین شفیق ٹیچرز تھیں. یہ سب مجھے نئے سکول میں زیادہ شدت سے یاد آتا تھا۔ ھائی سکول میں مرد اساتذہ طالبعلموں کو سُدھارنے کے لئے لکڑی کے موٹے ڈنڈوں کا استعمال کرتے تھے۔۔۔۔ وہ یہ سمجھتے تھے ڈنڈے کے استعمال سے شاید طالبعلم زیادہ تعبیدار اور زہین ہو جائیں گے. اگرچہ پرائمری سکول میں خواتین اساتذہ بھی ہاتھ کے ساتھ ساتھ سٹِک کا استعمال کرتی تھیں, مگر ایک حد تک اور باحالتِ مجبوری.

میرے حساب سے ہائی سکول کے مرد اساتذہ سفاک فرعونوں سے کم نہ تھے۔ زرا زرا سی بات پر ھاتھوں پر زور دار ڈندے کی بارش ایک معمول تھا۔ یوں معلوم ھوتا تھا کہ اساتذہ اپنے اندر کا غصہ بچوں پر نِکال رھے ھوں۔ اِس قوت سے ڈنڈا ھاتھ پر لگتا کہ جیسے ابھی گوشت ہڈیوں سے علیحدہ ھو کر زمین پر آرھے گا۔ جب دِل چاھتا تو پچوں کو مرغا بنا دِیا جاتا۔ بچوں کے ٹانگوں کے پٹھے کھچ جاتے اور بچے کسمساتے رھتے، کبھی اِس ٹانگ پر جسم کا بوجھ ڈالتے تو کبھی دوسری ٹانگ پر۔ اُن دنوں میری توجہ پڑھائی پر کم اور ڈنڈوں پر زیادہ رہتی. میں سارا دن اِسی خوف میں مبتلا رھتا۔ اپنے ھاتھوں اور اپنی عزت کو بچانے کی خاطر حد سے زیادہ خاموش رھتا اور اور کوشیش ہوتی کہ ہوم ورک وقت پر مُکمل ہو مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کوتاہی یا کمی رھ جاتی. ایسی صورت میں ڈنڈے کا ظالمانہ جادو چل ہی جاتا.

اِس تبدیلی میں ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ میرا ماموں زاد کزن کسی دوسرے انگریزی میڈیم میں داخل ھو چکا تھا۔ ماموں کے مالی حالات ہمارے حالات سے بہتر تھے. چناچہ وہ ایک ایسے سکول میں داخل ہوا جو بہترین عمارت پر مشتمل تھا, اور لاھور ایک نئے پوش علاقے شادمان میں واقع تھا. جہاں میں داخل تھا, وہ سکول لاھور کینٹ میں لاھور کینٹ سٹیشن سے زرا دور ریلوئے لائن سے نزدیک تھا. آتی جاتی ٹرینوں کا شور کانوں کو پھاڑتا, اور ریل انجنوں کے ہارن دیر تک کان میں گونجتے رہتے.

میرے والدین کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہ تھی کہ وہ کسی مہنگے سکول میں میرا داخلہ کرواتے. مجھے کوئی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے کا بہت چائو نہ تھا, اصل معاملہ ماحول کی تبدیلی تھی. پہلے سکول میں سارے بچے اُردو بولتے تھے, جبکہ ہائی سکول میں ایسی پنجابی بولی جاتی تھی جس میں 'ماں بہن' کی گالیاں کثرت سے استعمال ہوتی تھی. زو معنی لفظ, فقرے اور اِشارے ایک عام روّیہ تھے. پھر پرائمری سکول میں, میں اور میرا ماموں زاد کزن مل جُل کر کھیلتے تھے، اور اب نئے سکول میں, میں اکیلا یونہی لاتعلق سا گھومتا پھرتا رہتا. مجھے یوں لگتا تھا میں کیسی ایسے قید خانے میں ہوں جہاں سب مجھے سے مختلف ہیں.... جیسے کسی غیر سرزمیں پر قائم قید خانے میں مقامی ہولناک قیدیوں کے ہمراہ میں ڈرا سہما سب سے الگ ایک کونے میں قید... جیسے قید خانے کے قید خانے میں قید. یہاں مجھے سب کچھ خود ہی برداشت کرنا پڑ رھا تھا۔ اب تلخ دن تھے، گرمی، لمبے فاصلے، خاموشی اور پنجابی زبان میں ننگی گالم گلوچ کا ماحول۔

اب چاند کا تصور تو صرف رات تک ھی محدود ھو کر رہ گیا تھا۔ سیاہ آسمان، ٹمٹماتے سِتارے، خاموش چاند۔۔۔ اور وہ بھی کوسوں دور ۔۔۔۔

نئے سکول میں انجم عرف بھابھی، فردوس، رچرڈ پیٹرک اور مشرف میرے نئے دوست بنے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انجم کو لڑکے بھابھی کیوں کہتے تھے، جب کہ وہ اچھا بھلا مردانہ لڑکا تھا۔ بس اُس کی بھنوئیں خوبصورتی سے نسائی انداز سے خمیدہ تھیں, اور ناک ستواں. اٹھتا سفید مائل رنگ. جبکہ فردوس اپنے نام کی طرح کہیں نہ کہیں نسوانی جازبیت رکھتا تھا۔ مشرف گورا چٹا پڑھاکو لڑکا تھا۔ رچرڈ پیٹرک اپنے نام کی طرح انگریز نہ تھا بلکہ اُس کا رنگ خاصا سیاہی مائل تھا۔ مگر رچرڈ دل کا بہت گورا تھا, بہت شفیق, دوستانہ اور ہنس مُکھ.

دوستی ھونے کے باوجود بھی میں اُن سب کے ساتھ گُھل مل نہ سکا۔ کہیں نہ کہیں ایک ایسا خلاء تھا جو مجھے مجمعے میں اکیلا کیئے ہوئے تھا. شاید ایک وجہ میرا پنجابی ھونے کی باوجود پرائمری سکول اور گھر کے ادبی ماحول کی وجہ سے لاھوری پنجابی زبان فرفر نہ بول سکنا تھا، اِس لیئے زیادہ تر خاموش رھتا تھا.

کہیں نہ کہیں سے خاموشی اور اُداسی میرے اندر وجود میں پوشیدہ تھی، میرے وجود کاحصہ تھی ۔۔۔ میری شخصیت کا جز بن گئی تھی، اور اُس خاموش شخصیت میں صرف ایک ہی چہکار تھی، چاند کی چاندنی، جو کہیں نہ کہیں میری آنکھوں میں خواب بن کر چمکتی رھتی تھی ۔۔۔! (جاری ہے)
-------------
عمّاریاسر
26 دسمبر 2012

image