من موجی
پہلی قسط
من موجی دل کا سفر ھے جو دکھ اور سکھ کے ساتھ ساتھ چلتا ھے۔ من موجی روح کا سُراغ ہے جو محبت کی تلاش میں محبت کے معنی تلاش کرنے بیٹھ جاتا ھے. من موجی ایک بھٹکا ھوا مسافر ھے, جو ریلوے سٹیشن بیٹھا رھا, اور اس کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب اس کی ریل چھوٹ گئی. من موجی محبت کی دہلیز پر بیٹھا جوگی ھے, جو بھیک میں صرف محبت کے دو سچے بول مانگتا ھے. وہ ایک ایسا قسمت کا مارا ھے جو چاھا گیا اور پھر رد کردیا گیا. اس کے لئیے دروازہ کھولا گیا, اور پھر منہ پھیر کر دروازہ بند کردیا گیا. من موجی ایک خود کلامی ھے.
........

من موجی
----------------------------------
وہ
”1“
-------------------------------------
شام کو ٹیوشن اور پھر گھر
------------------------------------

وہ بیتاب بھی تھی اور پریشان بھی۔۔۔ ایک طویل توقف کے بعد اس نے خاموشی توڑی،"من! ۔۔۔ میں نے ایک فیصلہ کر لیا ھے ۔۔۔" جیسے اس نے الٹیمیٹم دیا ھو ۔۔۔

من موجی جانتا تھا وہ طویل سفر سے تھک چکی تھی۔ سارا دن کی جاب ۔۔۔ شام کو ٹیوشن اور پھر گھر۔۔۔ انتطار کرتا بچہ۔ زندگی کے اس سفر میں کوی بھی تو نہیں تھا ساتھ اس کے۔۔۔ شوھر جو ایک بازاری عورت سے شادی کر چکا تھا اور دوسرے شہر جا بسا تھا، بس کبھی کھباربچے کے بہانے حاضری لگانے چلا آتا تھا۔ گھر والے جو اس کی شادی شدہ زندگی کی ناکامی پر پریشان بھی تھے اور اس کی تنخواہ کے منتظر بھی۔

پھر ۔۔۔ اس معاشرے کے مرد تو تھے ہی بازاری کہ جانتے تھے وہ کھلے زھن کی عورت ھے۔ سب اس تاک میں رھتے تھے کہ کب وہ ان کے ساتھ وقت بیتاے۔۔۔ اور وہ اپنی ہوس کی آگ بجھائیں۔

اور ایک دن وہ من موجی کے دوست کی دوست ھو گئی ۔۔۔ اس کی زندگی رنگین ھو گئی۔ کھبی کبھار وہ دونوں من موجی کے آفس چلے آتے۔ وہ من کی شاعری سنتی اور اپنی سناتی۔

من موجی
11 اگست
2012
.....
وہ
"2"
------------------
اس کی نگاہ میں
------------------

من موجی کا دوست اس لڑکی کے ساتھ خاصا بے تکلف تھا۔ لیکن کہیں سے بھی یہ احساس نہ ھوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی تعلق دوستی کے علاوہ بھی ھے۔

وہ دونوں ایک این جی او میں کام کرتے تھے، جو تعلیمی فلاھی مقاصد رکھتی تھی۔ اکثر وہ من کے آفس کال ملاتی اور بے تکان باتیں کرتی۔ من موجی کے تنہاء لمہے خشگوار ھو جاتے۔ مگر چند لمہوں بعد بے کیفیت احساس من موجی کو آن جکڑتا جب وہ کہتی کہ فرخ مجھ سے بات کرنا چاھتا ھے۔ دراصل وہ رسیپشنسٹ بھی تھی، سٹینو بھی اور سیکرٹری بھی۔ من موجی سے ھیلو ھائےتو دراصل صرف اخلاق تھا یا ایک شاعرانہ تعلق۔ یہ چیز من موجی کو کمآئیگی میں مبتلا کرتی تھی کہ وہ من موجی سے صرف اس لیے بات کرتی ھے کہ وہ فرخ کی کال اُس سے ملاتی ھے۔

کہیں نہ کہیں من موجی کے اندر ایک خواہش جنم لے رھی تھی کہ کبھی وہ من موجی سے صرف اُس کے حوالے سے بات کرے، نہ اس میں فرخ ھو نہ شاعری۔ کبھی وہ اُس سے ملنے اُس کے آفس آئے، اکیلے تنہاء۔ من موجی کے دل میں کوئی بدی نہ تھی بلکہ ایک مردانہ جلاپہ تھا کہ آخر من موجی کی تنہاء شناخت بھی کوئی حثیت رکھتی ھے، شاعرانہ شخصیتی عنصر تو من موجی کے اندر ھے، جو اس میں بھی ھے اور جو فرخ میں ھے ھی نہیں۔

یہ مردانہ جلاپہ ایک انتقام سا بنتا جا رھا تھا، جو اسے تسخیر کرنا چاھتا تھا۔ اس میں فرخ کہیں بھی نہیں تھا کیونکہ وہ تو من موجی کا دوست تھا۔ بس وہ چاھتا تھا کہ جو حثیت فرخ کی اس کی نگاہ میں ھے وہ من موجی کی ھو جائے، چاھے فرخ کے ساتھ وہ گھومے پھرے، مگر تڑپے من موجی کے لیئے، روئے وہ اُس کے لیئے۔ فرخ سے صرف دوستی ھو، ایک اخلاقی تعلق ھو۔

---- جاری ھے ----

من موجی
14 اگست
2012
.....
وہ
"3"
---------------------------
سرد شام شدت سے ۔۔۔
---------------------------

مگر ایسا نہ تھا۔ وہ فرخ کے ساتھ ہی تھی، اس کی جاب کا بڑا دورانیہ اکھٹے ہی گزرتا تھا۔ جب وہ دونوں اکھٹے من موجی کے آفس آتے تو یوں لگتا جیسے من اُن کی خدمت پر معمور ھو اور اُس کے اخلاقی فرائض منصبی میں ان دونوں کی خدمت میں پیش پیش ھونا لازمی ھو۔

دراصل من موجی کا آفس ان دونوں کو آزدانہ ما حول محیاء کرتا تھا جہاں وہ قدرے قریب اور دفتری اطوار سے مُبرا ھو کر بات چیت کر سکتے تھے۔

من موجی مقدمات کی فائلوں کے سا تھ ساتھ ان دونوں سے بات چیت بھی کرتا رھتا تھا۔ شام گئے جب وہ تینوں فارغ ھوتے تو گل نور بس پکڑتی، من موجی اور فرخ موٹر سائکل پرسیاسی کام پر نکل جاتے۔ اور یا پھر اگر ان دونوں نے اکھٹے جانا ھوتا تو وہ من موجی سے اجازت لیتے۔

لاھور عجیب شہر ھے۔ سردیوں میں شام ساڑھے چار بجے ھی سرد ماحول اور دھند کی چادر اوڑھ لیتی ھے۔ لوگ سرد موسم میں موج مستی کرتے، سگرٹوں کے دھویں سے کیھلتے لاھور کی خاموش سرد سڑکوں پر رواں دواں ھو جاتے ھیں۔

شام کو جب وہ دونوں رخصت ھوتے تو سرد شام شدت سے اپنا آپ منوانے کے لیے عود آتی۔ من موجی کو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کی گرم قربت میں اس سردی کا لطف لے رھے ھیں۔ جبکہ من موجی کو موٹر سایئکل پر دور آفتادہ نئی کالونی تک کا خون جما دینے والا سفر کرنا پڑتا تھا۔ لاھور ہائیکورٹ سے کالونی تک کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہیں۔ یک لخت سرد اور رات میں ڈھل جانے والی سرد شام لاھور کی ھیوی ٹریفک میں اور بھی سفر کو بوجھل کر دیتی تھی۔

گھر میں تھا ھی کیا۔۔۔؟ کوئی تھا جو انتظار کرتا ۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا۔ سوائے سرد دیواروں کے اور میکانکی رشتوں کے۔
------------------------
جاری ھے۔
-------------------------
من موجی
20 اگست
2012
....
وہ
"4"
-----------------------------------
جب سرِشام اُداس سا ھو کر ۔۔۔
-----------------------------------
گھر میں داخل ھوتے ھی ایک سرد خاموشی اسقبال کرتی۔ سرد دیواریں، سرد چہرے، میکانکی مسکراہٹ۔ سارا دن کی بھوک اور بے کیفیتی ماحول مزید بوجھل کرتا۔

والدہ کے انتقال کے بعد یوں لگتا تھا گویا زندگی بے نام رھ گئی ھو، نہ دلکشی، نہ تازگی۔ گھر میں من موجی اور اُس کے بھائیوں اور ایک بھابھی کے سوا تھا ھی کون۔۔۔ بھا بھی کی تمام توجہ کا مرکزچھوٹا بھا ئی تھا۔ اس کا بناؤ سنگھار، اس کا کھانا بنانا، ۔۔۔ سب بھائی کے لیے تھا۔ من موجی چونکہ بھائیوں میں بڑا تھا اس لئے زیادہ تنہائی کا شکار تھا۔ دو چھوٹے بھائی مشترکہ کام کی وجہ سے کافی باہمی گفت و شنید کرتے نظر آتے تھے۔ جب کہ وہ چاروں بھائی باہمی ھم آہنگیت کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنے اپنے خول میں بند تھے۔

والد کے انتقال بعد، اور بہنوں کی شادیوں کے بعد، گھر ویسے ھی چپ چاپ سا ھو گیا تھا۔

شام کو من موجی جب گھر لوٹتا تو ادھورے پن کا احساس ھوتا۔۔۔ ایک انجانی خواہش جنم لیتی کہ کاش کوئی منتظر ھو، کوئی مسکرا کر خوش آمدید کہے اور خوشبوؤں کا ہالہ اداس ماھول پر تن دے۔ مگر ایسا کہاں تھا۔

پھر وکالت کا خشک پیشہ علیہدہ طبعیت کو خاموش کرتا۔ تیز آواز پر میوزک ھی واھد سہارا تھا جو اندر کے ابال کو دبا سکتا تھا۔ معاشی الجھنیں اپنی جگہ تھیں۔

من موجی کوسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کس کے پاس جائے، کس کے پہلو میں سر رکھ کر پہروں روئے۔۔۔ کس کا دامن تھام کر یقین حاصل کرے۔
-------------------------------------------------
من موجی
27 اگست
2012

image