وہ
"4"
-----------------------------------
جب سرِشام اُداس سا ھو کر ۔۔۔
-----------------------------------
گھر میں داخل ھوتے ھی ایک سرد خاموشی اسقبال کرتی۔ سرد دیواریں، سرد چہرے، میکانکی مسکراہٹ۔ سارا دن کی بھوک اور بے کیفیتی ماحول مزید بوجھل کرتا۔

والدہ کے انتقال کے بعد یوں لگتا تھا گویا زندگی بے نام رھ گئی ھو، نہ دلکشی، نہ تازگی۔ گھر میں من موجی اور اُس کے بھائیوں اور ایک بھابھی کے سوا تھا ھی کون۔۔۔ بھا بھی کی تمام توجہ کا مرکزچھوٹا بھا ئی تھا۔ اس کا بناؤ سنگھار، اس کا کھانا بنانا، ۔۔۔ سب بھائی کے لیے تھا۔ من موجی چونکہ بھائیوں میں بڑا تھا اس لئے زیادہ تنہائی کا شکار تھا۔ دو چھوٹے بھائی مشترکہ کام کی وجہ سے کافی باہمی گفت و شنید کرتے نظر آتے تھے۔ جب کہ وہ چاروں بھائی باہمی ھم آہنگیت کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنے اپنے خول میں بند تھے۔

والد کے انتقال بعد، اور بہنوں کی شادیوں کے بعد، گھر ویسے ھی چپ چاپ سا ھو گیا تھا۔

شام کو من موجی جب گھر لوٹتا تو ادھورے پن کا احساس ھوتا۔۔۔ ایک انجانی خواہش جنم لیتی کہ کاش کوئی منتظر ھو، کوئی مسکرا کر خوش آمدید کہے اور خوشبوؤں کا ہالہ اداس ماھول پر تن دے۔ مگر ایسا کہاں تھا۔

پھر وکالت کا خشک پیشہ علیہدہ طبعیت کو خاموش کرتا۔ تیز آواز پر میوزک ھی واھد سہارا تھا جو اندر کے ابال کو دبا سکتا تھا۔ معاشی الجھنیں اپنی جگہ تھیں۔

من موجی کوسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کس کے پاس جائے، کس کے پہلو میں سر رکھ کر پہروں روئے۔۔۔ کس کا دامن تھام کر یقین حاصل کرے۔
-------------------------------------------------
من موجی
27 اگست
2012
....
وہ
"5"
---------------------------------
کھیلن کو مانگے چاند رے ۔۔۔
--------------------------------

زندگی گول پہیے کی طرح تھی، صبح، شام بھر رات اور پھر صبح۔

آفس میں مقدمات کی فائیلیں اور خشک موضوعات، چائے اور سگریٹ۔ دھواں، بے کیفیت، اور خاموشی۔

شام گئے دوست آفس میں آجاتے اور باتیں ھوتیں، سگریٹ پیئے جاتے، قہقہے، ہا ہا ۔۔۔ ہو ہو ۔۔۔۔ مگر ان کے جانے کے بعد وہی خاموشی۔

دن تھے کے گزرتے گزرتے گزرتے نہ تھے۔ شام تھی کہ آتی نہ تھی، آ جاتی تو رات کے آگے سینہ تان لیتی، "میں تجھے آنے نہ دوں گی۔۔۔" ۔۔۔۔ رات سہم جاتی۔۔۔ گڑگڑاتی، پیروں پڑتی۔۔۔ روتی۔۔۔ شام قہقہہ لگاتی اور پھر غائب ھو جاتی۔

رات جھٹ سے عود کرآتی۔

بے بسی چپ چاپ مسکراتی۔۔۔ "ھیلو ۔۔۔۔ اب کیا ھو گا۔۔۔۔؟"۔

سب سو جاتے۔ خاموشی ۔۔۔۔ بے چینی، تنہائی۔۔۔۔

آسیہ کا فون آجاتا۔ بے تکان بولتی جاتی۔۔۔ قہقہہ، باتیں، لمس، سانسیں، اُھو آھا۔۔۔۔ پھر کوئی آرھا ھے۔۔۔ اچھا میں رکھتی ھوں۔

بھر رات کا راج۔۔۔ اندھیرا۔۔۔ ٹک ۔۔۔ ٹک ۔۔۔۔ ٹک۔۔۔۔

اخبار کی وہ خبریں بھی پڑھی جاتیں جو کوئی نہیں پڑھنا چاھتا۔۔۔ پھر ٹی وی۔۔۔

آسیہ اور من موجی دونوں رات کے ساتھی تھے۔ فون اُن دونوں کو مصروف رکھتا تھا۔ مگر پھر کیا کمی تھی جو ختم نہ ھو تی تھی، وہ کیا سیلاب تھا جو رُکتا ھی نہ تھا، وہ کیا بارش تھی جو تھمتی ھی نہ تھی۔ ٹک ٹک ۔۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔۔

کیا من موجی سراب کے پیچھے بھاگ رھا تھا۔۔۔ کیا آسیہ اور "گُل نور" صرف محرومیاں تھیں، اور اگر تھیں تو کیا یہ نا آسودہ جنسی محرومیاں تھٰیں، دماغ سُن تھا۔۔۔ سمجھ چپ تھی۔۔ کچھ تھا جو نہیں تھا، کچھ تھا جو کم تھا۔۔۔ من "چاھت" کا متلاشی تھا۔۔۔ نہ "وہ" محبوبہ تھی اور نہ آسیہ۔۔۔ کوئی جنون تھا جو عشق کرنا چاھتا تھا۔۔۔ عشق میں ڈوب جانا چاھتا تھا۔۔۔ کوئی ایسی ھستی۔۔۔ جو من موجی کی خواھشوں کی طرح ھو۔۔۔ دلربائی ھو، دودھ کی طرح ملائی ھو، جو بولے تو لفظ ناچیں، جو چلے تو بہاریں جھوم جھوم جائیں۔۔۔

جو من موجی کے سامنے آکھڑی ھو۔۔۔ جو سب کے سامنے من موجی سے اپنی وارفتگی کا اعلان کرے۔ کہہ دے،
"من۔۔۔۔ تم میرے ھو۔۔۔ آ جاؤ میری باھوں میں، بساا لو اپنے دل میں۔۔۔"

جو اپنے سارے پوشیدہ بندھن خود ھی کھول دے۔۔۔

مگر کوئی ایسی ھستی تو کہیں تھی ھی نہیں۔۔۔۔

دل تو بے بس تھا۔۔ چپ تھا۔۔۔ منتظر تھا۔۔۔ جو کھیلنے کو چاند مانگتاتھا۔۔۔۔ آہ۔۔۔
--------------------------------------------------
من موجی
11 ستمبر
2012
.....
وہ
------------
"6"
---------------------------
چاند تو کوئی اور ھے۔۔۔
---------------------------
کبھی من موجی سوچتا کہ کیا چاند مانگنے سے مل جاتا ھے، کبھی سوچتا کیا چاند چھینا بھی جا سکتا ھے؟ پھر سوچتا کہ کیا چاند کبھی ملتا ھی نہیں۔۔۔۔ مگر بھر یہ خیال سوال بن کر آجاتا کہ وہ کون ھوتے ھیں جن کو چاند چاھنے سے، مانگے سے مل جاتا ھے۔

چاند آسمان پر کہیں چمکتا ھے، جو وجود کی دسترس سے دور ھوتا ھے، تو لوگ کیسے چاند حاصل کر لیتے ھیں؟ من موجی دل کی افسردگی کو کبھی سمجھ نہ پاتا تھا۔ اُسے لگتا تھا کہ دل کی افسردگی دور کرنا آسان بات نہیں۔ یہی افسردگی جب گہری ھو جاتی ھے تو روح کی افسردگی میں تبدیل ھو جاتی ھے۔ وہ یہ بھی سوچتا کہ شاید "چاند" مل جانے سے ھی افسردگی دور ھو جاتی ھو۔۔۔۔!

مگر جب وہ گل اور آسیہ کو سوچتا تو اسے صاف محسوس ھوتا کہ چاند تو کوئی اور ھے۔۔۔ کوئی اور دلربا، کوئی اور ماہ نور۔۔۔

افسردگی بڑھتی ھی چلی جا رھی تھی۔

مالی مسائل بھی بڑھتے ھی جا رھے تھے۔ قانون کا پیشہ آسان نہیں ھوتا، خاص طور پر اگر آپ رئیس خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ ملک کی عدالتیں انسانی منفی ظالممانہ رویوں کو دور کر کے منصف کی جبلتی طریق پر ایستادہ ھو ھی نہیں سکیں۔ ایسی صورت میں من موجی جیسے وکیل پیشہ ورانہ مشکلات کا مزید شکار ھو جاتے ھیں۔ کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ من موجی فطری طور پر وکالت کے پیشے کے لیے موزوں ھی نیہں، بلکہ وہ اور لوگ ھوتے ھیں جو وکالت جیسے پیشے کے لیے موزوں ھوتے ھیں۔ چالاکی، دوغلا پن، چرب زبانی، جھوٹ اور پیسے بٹورنے کی حرص ایک عمومی وکیل کی قابلیت کے علاوہ اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ھوتی ھیں، یہ سب صلاحیتٰیں من موجی میں تو دور دور تک نیہں تھیں۔ وہ تو فطری طور پر ادبی، منطقی تھا اور سادگی کو پسند کرتا تھا۔ اُس کو سب سے مشکل کام فیس منگنا لگتا تھا، جبکہ اس پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو کیس لڑنا مشکل اور طے شدہ فیس سے زیادہ پیسے مانگنا سب سے آسان کام لگتا ھے۔ اس کے نہ تو بڑے بڑے سرکاری افسروں سے تعلقات تھے اور نہ ھی ججوں سے ۔۔۔ اُس کی تو اپنی دنیا تھی ۔۔۔ اپنی منطق، اپنی سوچ۔۔۔

شاید من موجی تبھی سوچنے لگا تھا کہ چاند اُن ھی لوگوں کو ملتا ھے جو من موجی جیسے افسردہ اور بےواقوف نہیں ھوتے۔۔۔۔۔
------------------
من موجی
------------------
13 اکتوبر
2012
---------------

image