چاند اور دھول
-------------
9 ویں قسط
--------------
دیوانگی کی سزا
-----------------
ایک سال بعد ہی من موجی کے کزن کا داخلہ بھی اُردو میڈیم سکول میں ہو گیا کیونکہ وہ انگریزی/انگلش میڈیم سکول میں تعلیمی لحاظ سے ایڈجسٹ نہ ھو پایا تھا۔ اب من موجی کے لیئے اُس سکول میں سب آسان ھو چُکا تھا۔ مگر ساتھ ھی ایک نئی مصیبت پیدا ھو گئی۔ اُس کا کزن اپنی غصیلی طبعیت اور بے ربط رویوں کی بنا پر دوستوں کے مذاق کا نشانہ بنتا اور پھر وہ جھنجھلا کر اُن سے ہاتھا پائی پر اتر آتا۔ اب صورتِحال یہ بنتی کہ من موجی معاملہ رفع دفع کرانے لگتا۔ وہ دوستوں کو بھی ناراض نہ کرنا چاھتا تھا اور کمال کو بھی خوش رکھنا چاھتا تھا اُس کو لڑائی مار کُٹائی سے بچانا چاھتا تھا۔ مگر کمال تھا کہ بات سمجھتا ھی نہ تھا۔

اِس ساری بد مزا صورتِحال کے باوجود من موجی اور کمال ساتھ ساتھ پھرتے، باتیں کرتےاور مزے اُڑاتے۔

سکول سے زرا دور فوٹرس اسٹیڈیم کے وسیع میدان میں "عوامی میلہ" لگا کرتا تھا، جسے "ھارس اینڈ کیٹل شو" بھی کہا جاتا تھا۔ من موجی کو یاد تھا کہ جب وہ بہت چھوٹا تھا تو اپنے ابا جان کے ساتھ ھارس اینڈ کیٹل شو دیکھنے جاتا تھا۔ لاھور کی سرد صبح دس گیارہ بجے ہلکی ہلکی گُلابی دھوپ ۔۔۔ دور دور ریشم سی تہہ والی مدھم سی دُھند ۔۔۔ سب کچھ کتنا خواب سا لگتا تھا۔ مارچ کا مہنہ لاھور میں اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلواہ افروز ھوتا تھا۔ تب فوجی جوان موٹرسایکلوں پر کرتب دِکھاتے اور بعد میں "ٹی ٹو شو" بھی ھوتا۔

جب من موجی زرا بڑا ھوا تو وہ کمال کے ساتھ چُپکے سے یہ میلہ دیکھنے چلا جاتا۔ وھاں وہ مختلف سٹال دیکھتے اور من تو جانوروں اور مرغیوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ گائے اور بیل کس قدر پلے بڑھے ھوتے تھے۔ سب سے زیادہ وہ مرغیوں کو دیکھ کر حیران ہوا کرتا تھا. بعض قسم کی مرغِیاں عام مرغیوں سے کئی گنا بڑی ھوتی تھیں اور بعض اس قسم کی بھی تھیں جو جینیاتی طور پر پست قد کاٹھ والی ہوتی تھیں.

لوگ جوق در جوق میلے میں آتے۔ خوب خریداری ھوتی۔ من موجی چھوٹے چھوٹے رنگین چوزوں کو دیکھ کر پاگل ھو جاتا۔ اُس کا جی چاھتا کہ وہ سارے چُوزے خرید لے۔ اُن پر لال, پیلا, نیلا اور سبر رنگ چڑھا دیا جاتا تھا. ایک دفعہ جب وہ کمال کے ساتھ میلے میں گیا تو سکول فیس کے پیسوں سے چُوزے خرید لایا۔ وہ بہت خوش تھا، تین عدد رنگ برنگے چوزے۔ جب وہ گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا کہ چوزے خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے، اب سچ بتانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا. خواب پورا کرنے کے لیئے وہ یہ بھول گیا تھا کہ حقیقت کی حثیت بدل نہیں جاتی. من موجی نے سچ سچ بتا دِیا۔ ماں نے واضح الفاظ میں کہہ دِیا کہ اب فیس تو ملنے والی نہیں۔ ما ں نے کہا اب سکول سے نام کٹے گا اور اُسے یہ سزا تو بُھگتی ھی ھو گی۔

من موجی کے لئے وہ دن بہت پریشان کُن تھے۔ سکول سے نام کٹ جانے کا خوف، نام کٹ جانے کا دُکھ. ابھی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ نہیں گزری تھی. وہ چوزوں کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ اُس نے کیا کِیا۔ کبھی چوزوں پر رحم آتا تو کبھی خود پر۔ اپنی چاھت پر تو من موجی شرمندہ نہ تھا اور اُسے حماقت سے تعبیر نہ کرتا تھا مگر اُس کے حصول کے طریقے پر ضرور دُکھ ھوتا تھا۔ وہ سوچتا کاش وہ ایسا نہ کرتا، کاش وہ اپنے والدین سے اِجازت لے لیتا اور اُن سے پیسے مانگ لیتا۔ مگر اب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔ اب سکول سے نام کٹنے والا تھا۔۔۔ سزا کے دِن قریب تھے۔۔۔!
-------------
من موجی
-------------
6 جنوری
2013
------------
چاند اور دھول
---------------
10 ویں قسط
---------------
گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں
-------------------

مگر ایک دن جب من موجی گھر لوٹا تو ماں نے محبت سے دیکھتے ھوئے بتایا اور پھر نصیحت کی کہ فیس تو والد صاحب نے جمع کروا دی ھے اور اب وہ دوبارہ ایسا کچھ نہ کرے, ورنہ پھر سزا بھی ملے گی اور فیس بھی ادا نہ ہو گی. یہ سُن کر اُس کی ساری پریشانی دور ہو گئی. وہ سوچنے لگا
کہ اچھا ہی کیا کہ اُس بے چوزے خرید لیئے کہ فیس تو ادا ہو ہی گئی. اُسے لگا خواب پورا کرنے کے لیئے جتن تو کرنا پڑتے ہی ہیں, دریا کو پار کرنے کے لیئے کنارے سے دوڑتے پانی میں چھلانگ تو لگانا پڑتی ہی ہے. مگر تب وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی کبھی دریا کے کنارے بھی برد ہو جاتے ہیں, بہتے پانی کی خوفناک لہریں بے رحم ہو کر زندگی کی آخری سانسوں کا گلا بھی گھونٹ دیتی ہیں.

تب من کے زہن میں بات بیٹھ گئی کہ خواب دیکھنا ضروری ہے, دریا میں چھلانگ لگانا ضروری ہے,

جب وہ سکول سے گھر آتا تو چوزوں سے کھیلنے لگتا. چوزے چوں چوں کرتے اور وہ اُن کو محبت سے دیکھتا رہتا۔ وہ گھر کے صحن میں اُنہیں کُھلا چھوڑ دیتا اور چیلوں سے بچانے کی غرض سے اُن کے ساتھ ساتھ چلتا رھتا۔ اُن کے کھانے پینے کا خیال رکھتا۔ مگر ایک دن جب وہ سکول سے گھر لوٹا تو دیکھا کہ ایک چوزہ پنجرے میں مرا پڑا تھا۔ اُسے بہت دُکھ ھوا۔ اُس پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ حصول ہی حتمی منزل نہیں ہوتی. حاصل آپ کی دسترس میں آ بھی جائے, تو اُس کا جدا ہونا بھی ہو سکتا ہے. بچھڑنے کا سانحہ بھی ہو سکتا ہے. اُس حقیقت نے اُس کے اندر کے خلا میں ایک عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کر دیا.

اب صرف دو چوزے رھ گئے تھے. اُنہیں دیکھ کر من کو ایسے لگتا جیسے وہ ادھورے ہیں, جیسے کوئی دائمی سی کمی معرضِ وجود میں آگئی ہو. جبکہ درحقیقت یہ احساس تو من موجی کے اپنے اندر تھا, ورنہ زندگی سے بھرپور چوزے تو خوشی خوشی پھدکتے پھرتے تھے. اُنہیں ساتھی کے بچھڑنے کا زرا بھر بھی احساس نہ تھا.

ایک دن دوسرا چوزہ بھی مر گیا۔ من موجی سوچنے لگا کہ یہ موت کیا چیز ھے، جو زندگی کی تمام رعنائیوں کو یک لخت نگل جاتی ھے۔ زندگی جو سر نیچے کر کے اپنے آپ کو موت کی آغوش میں دے دیتی ھے یہ جانتے ھوئے بھی کہ وہ کتنی حسین ھے، کتنی اُمنگ سے بھرپور ھے۔ مگر موت کی دہلیز پر وہ سرنگوں ہو کر اپنی آخری سانس وار دیتی ہے.

من موجی اب رہ جانے والے چوزے کی بہت حفاظت کرتا۔ اور اسے بِلا ضرورت دڑبے سے باھر نہ نکالتا۔ اُس کے دانے اور پانی کا خوب خیال کرتا۔ مگر اندر ہی اندر وہ اُس کی تنہائی کو دیکھ کر دکھی ہو جاتا. وہ سوچتا کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا, تو وہ چوزا تنہاء نہ رھ جاتا.

وقت گزرتا رھا اور چند ماہ میں وہ چوزہ ایک جوان طاقتور مُرغ بن گیا۔ اب من موجی کو یوں لگتا تھا گویا ایک قطرہ بھی سمندر بن سکتا ھے۔ شام کو من موجی اُس مرغ کے ساتھ کھیلتا اور مزے اُڑاتا۔

ہائی سکول میں ڈنڈوں اور سخت ماحول کا خوف بھی اب کم ھو چکا تھا یا من موجی اُس کا عادی ھو چکا تھا۔ جونیئر سکول کے دن کہیں‌دور جا چکے تھے۔ نبیلہ اور خوشبو والی ربر بھی کہیں گم ھو چکی تھی۔ من موجی جانتا تھا ہر من چاھی چیز مل نہیں سکتی، مگر اُس کے اندر ایک کسک رھ گئی تھی، ایک پھانس ۔۔۔ ایک چُبھن۔۔۔۔ ایک سوال اُس کے زہن میں قید ھو کر رہ گیا تھا کہ آخر ستارے آسمان پر ھی کیوں ٹمٹماتے ھیں، زمین پر کیوں نہیں اُتر آتے؟ کبھی کبھی وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ کاش وہ آسمان پر رھتا ھوتا جب جی چاھتا ستاروں کو چھو لیتا۔ دودھیا چاند کو اپنے ہاتھ مین لے لیتا اور اپنے دامن میں چھپا لیتا.

من موجی کے وجود میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں ۔۔۔ جیسے کہیں موسیقیت لے اُٹھا رھی ھو ۔۔۔ جیسے الفاظ سخن آویز لبادہ اوڑہ کر نظم ھو جانا چاھتے ھوں۔ کہیں نہ کہیں من موجی میں نِت نئے دروازے کھُل رھے تھے ۔۔۔ جو کسی نئی انجان دنیا کو در تھے اور من موجی کو وہاں لے جانا چاھتے تھے... ناجانے کہاں....
-------------
من موجی
-------------
23 جنوری
2013
------------

image