چاند اور دھول
---------------
11 ویں قسط
---------------
"کون ۔۔۔ کون ۔۔۔؟" کی پُکار ۔۔۔ اور شرارت سے بھری ہنسی ۔۔۔!
-------------------
بہار من موجی کی دیوانگی کو ھوا دینے کا موسم تھا۔ ایک ایسا موسم جب ھوایئں خاموشی کے زرد بندھن توڑ کر فضاء کا چہرہ چومتے ھوئے لہرا جاتیں ھیں ۔۔۔ جب پھول اپنا تمام تر حُسن عریانی کی نظمیت کے پہلو میں اُتار دیتٰے ھیں۔ بہار کے موسم میں وہ گھنٹوں تنہائی میں اِدھر اُدھر گھومتا رھتا ۔۔۔ فضاء میں تیرتے بادلوں کو کُھلی آنکھوں سے تاکتا رھتا۔

شام آتی تو ماحول بالکل مدھوش سا لگتا۔ بادل مزید مچلنے لگتے ۔۔۔ آسمان اور نکھر جاتا ۔۔۔ تتلیاں مہکتی آغوش کی مُتلاشی ھو جاتیں۔ اور ۔۔۔ اور ایک دم آسمان کے پوشیدہ کونے سے چاند کسی اَن دیکھے محبوب کی طرح مُسکراتے ھوئے چُپکے سے نمودار ھو جاتا۔ من موجی ایک لمبی سانس لیتا اور اُسے دیکھنے لگتا۔ چاند یکبارگی سے اپنا دائرہ بڑا کرتا رھتا اور اُس کا ہالہ اُسے آغوش میں لئے چلتا رھتا۔

من کو اب انتطار کی کیفیت بھا گئی تھی ۔۔۔ ایک ان دیکھا انتطار ۔۔۔ ایک لامتناھی انتظار ۔۔۔ کچھ پانے کی تمناء، اُسے خود نہیں علم تھا کہ اُسے کس چیز کا انتطار ھے ۔۔۔!

کوئی چہرہ ہنستا ۔۔۔ اور پھر چاند مسکرانے لگتا۔۔۔ کوئی زلف بدلی کی طرح لہراتی ۔۔۔اور پھر کانوں کی چمکتی بالی کی اوٹ لے کر سِمٹ جاتی۔ من موجی کے تصور کا وجود بھیگ جاتا۔ سوال گونجنے لگتے ۔۔۔وہ کون تھا ۔۔۔ جو چاند سے ان دیکھا چہرہ بنتا جا رھا تھا؟ من موجی کے اندر شاعری اُگنا چاھتی تھی۔ اُس کے لب کوئی نام پُکارنا چاھتے تھے۔۔۔ گُنگ زبان پر لفظ جذبوں کی آزان دینا چاھتے تھے۔

اُسے لگتا تھا کہ ایک لمبے راستے کے اُس پار کوئی منزل ھے ۔۔۔ اِردگرد گھنے درخت ۔۔۔ اُن کی اُوٹ میں پورا چاند۔۔۔ خواہشوں کا لامتناہی سلسلہ ۔۔۔ گھوڑوں کی تاپ ۔۔۔ دھیمے دھیمے قہقہے ۔۔۔ چھن چھن ۔۔۔ یکلخت درختوں کی نازک شاخوں کی سرسراہٹ ۔۔۔ "کون ۔۔۔ کون ۔۔۔؟" کی پُکار ۔۔۔ اور شرارت سے بھری ہنسی، جیسے کوئی کہہ رھا ھو ۔۔۔ "بوجھ سکتے ھو تو بوجھ لو ۔۔۔!"۔
-------------
من موجی
-------------
8 فروری
2013
------------
چاند اور دھول
---------------
12ویں قسط
---------------
"چاند پِھر نکلا ۔۔۔ مگر تم نہ آئے
جلا پِھر میرا دل ۔۔۔ کرؤں کیا میں ھائے"
-------------------
اِن تمام کیفیات نے من موجی کی طبعیت اور روح میں رومانوی موسم کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔ خوابیدہ احساسات کی بدلیاں خیالات اور خواہشات کے آسمان پر تیرتیں رھتیں۔ اگرچہ یہ سب کچھ تصوراتی دنیا میں جمالیاتی حسّیات کی ابتدا تھی، مگر ساتھ ساتھ من موجی کی منظقی سوچ سے متصادم بھی۔ وہ بیک وقت کثیرالجہتی محرکات کی زد میں تھا۔

اگر ایک وقت میں وہ چاند اور بادلوں کی چھیڑ چھاڑ کے حسیں مشاہدے میں مدہوش رھتا اور چاند کے حصول کی تمناء میں مبتلا رھتا تو دوسری طرف وہ معاشی اور سماجی اُتار چڑھاؤ کی مدوجزر کی زد میں بھی تھا۔ لامحالہ اِن تضادات نے من موجی کی روح میں بے تابی اور طبعیت میں اضطراب بھی پیدا کر دیا تھا۔ اُلجھن اور سوالات کی بوچھاڑ ہر وقت جاری رھتی۔ طبقاتی تفریق اور معاشرے میں میں جاری دوغلہ پن اُس کو اندر ہی اندر سے توڑتا رھتا۔

مگر بچپن کی معصومیت اُسے ہمیشہ مصروف رکھتی اور وہ نِت نئے تجربات کی دنیا میں دوڑتا چلا جاتا۔ من موجی کے والد صاحب تمام معاملات کو سیاسی اور منطقی انداز میں لیتے تھے۔ وہ ہر بات کو پرکھتے اور پھر بات کرتے۔ اُس کے نانا جی پاکستان بننانے کی داعی مسم لیگ کے پکے کارکن بلکہ رہنماء تھے، وہ مشرقی پنجاب کے ضلع کیتھل کے ضلعی صدر بھی رھ چکے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قریبی ضلع سے تعلق رکھنے والے لیڈر قائدِ ملت لیاقت علی خان کے رویے سے دل برداشتہ ھو چکے تھے، کیونکہ نانا جی سے ایک ملاقات کے دوران لیاقت علی خان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں اِسلامی نظام نام کی کوئی ترکیب آزمائی نہیں جائے گی۔ جبکہ نانا جی مذھبی رائیڑ، فلسفی اور معلم تھے۔

گھر میں سیاسی لحاظ سے دو گروپ تھے، دایئں اور بائیں سوچ کے دو گروپ۔ من موجی کے والد اور من موجی بائیں سیاسی سوچ کے حامل تھے اور نانا جی اور ماموں وغیرہ دائیں سوچ کے۔ گھر میں ہمیشہ سیاسی گرما گرمی رہتی۔ چونکہ گھر میں اخبارات روزانہ آتے تھے، چناچہ خوب بحث ھوتی۔ من موجی کے کزن مذھبی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے، روشن خیالی کو رد کرتے اور ہر اُس سوچ کو اپناتے جو بالآخر سماج میں تنگ نظری کا موجب بنتی۔

من موجی اپنے والد صاحب کی سیاسی بصریت سے متاثر تھا، صرف ا۔س لئے نہیں کہ وہ اُس کے والد تھے، بلکہ اِس لئے بھی کہ اُن کی باتیں اور تجزئے منطقی اور حقیقت سے زیادہ نزدیک معلوم ہوتے تھے.

گھر میں جاری یہ سیاسی کشمکش من موجی کی رومانویت پر پہرا بیٹھا دیتی تھی۔ من موجی جب جب چاند کے حصول کی خواہش کرتا تو حقیقت کا راجہ یک دم آدھمکتا اور حکم جاری کرنے لگتا کہ "جاؤ جاؤ تم ھو کیا؟ ۔۔۔ ایک کمزور سے ناتواں لڑکے ۔۔۔ تمہیں کسی چاند کی خواہش کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ کیا کبھی چاند سے بھی پوچھا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اور یہ کہ تمہیں چاہتا بھی ہے یا نہیں....؟ ۔۔۔ ایک عام سی واجبی سی صورت والے لڑکے کی اوقات ھی کیا ھے۔۔۔"

من موجی اِسی وجہ سے بجھا بجھا سا رھتا تھا۔۔۔ خاموش خاموش سا۔

ساتھ والے گھر کے لانبے لانبے سرو کے درخت چاند کو سمیٹ لیتے ۔۔۔ شام کی ھوا پُراسرار سی ھو جاتی ۔۔۔ نغمگی ہجکولے کھاتی۔۔۔ اور من کا تمسخر اُراتی۔۔۔ اور اُس گھر میں موجود چوکیدار رات گیارہ بجے جب ریڈیو لگاتا تو لتا کا پُرانا گیت چلنے لگتا ۔۔۔،
"چاند پِھر نکلا ۔۔۔ مگر تم نہ آئے
جلا پِھر میرا دل ۔۔۔ کرؤں کیا میں ھائے"

رات اور گہری ھو جاتی ۔۔۔ چاند بادلوں میں چھپ جاتا۔۔۔ اندھیرا چاروں اَور چھا جاتا۔
-------------
من موجی
-------------
10 مارچ
2013
------------

image