چاند اور دھول
---------------
13ویں قسط
---------------
پینسل اور غٹرغوں، غٹرغوں
-------------------
دن اور رات، رات اور دن ۔۔۔۔ کھیل کود، بھاگنا دوڑنا ۔۔۔ آگ اور پانی۔۔۔۔ خط اور زاویہ ۔۔۔ نرمی، گرمی، حدت اور تپش ۔۔۔ من موجی کی زات میں ھلچل پیدا ھو رھی تھی۔۔۔۔ ستارے، چاند، سورج۔۔۔ یہ سب کیا ھے؟۔۔۔ وہ گھنٹوں بیٹھا سوچتا۔

رات کو آسمان پر ستارہ ٹوٹتا ۔۔۔ اور بادلوں کی اوڑھ میں چاند مسکراتا رھتا۔ کوئی راستہ بھٹکا پرندہ لمبی چیخ کوکتا گزر جاتا۔

دن چڑھتا تو چھٹی والے دن ناشتے کو بعد من موجی ھاتھوں میں سکہ لیے شاہ جی کی پرچون کی دوکان پر پہنچ جاتا اور گولیوں ٹافیوں کو مُٹھی میں بھر لاتا۔ پھر مزے مزے سے کھاتا۔ وہ سوچتا کہ یہ سِکہ کیا ھے، جس کے بدلے میں اُسے چیزیں مل جاتیں ھیں؟ وہ یہ بھی سوچا کرتا تھا کہ کیا چاند بھی روپے کہ عوض مل سکتا تھا؟ ایسے کئی بے ربط سوالات اُس کے ذہین میں اُترتے رھتے تھے۔ من موجی جان چکا تھا یہ دنیا وہ نہیں جو نظر اتی ھے۔۔۔ دنیا میں روپے کی ایک قیمت ھے، جس سے چیزیں خریدی جا سکتیں ہیں۔ لیکن ابھی وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ انسان کی بھی قیمت ھوتی ھے، انسان بھی بِکتا ھے۔۔۔ انسان بھی خریدا جا سکتا ھے۔

محبت, من کا تحت الشعور موضوع تھا۔ وہ اندر ہی اندر "محبت" کا پُجاری تھا۔ مگر وہ محبت کے لافانی جذبے میں "عورت" اور "جنس" کی اہمیت سے ناآشنا تھا۔ محبت تو پودے سے بھی کی جاسکتی تھی، اور من موجی کرتا بھی تھا کہ وہ اپنے والد کی طرح پودوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ محبت تو اسے اپنی پالتو مرغی سے بھی تھی کہ جس کا وہ پل پل خیال کرتا تھا۔ محبت کسی بھی شے میں "خوبصورتی" تلاش کرنے اور پھر اُس خوبصرتی کو شدت سے چاھنے کا نام ھے۔ خوبصورتی تو ایک پتھر میں بھی ھے ۔۔۔ خوبصورتی تو سیاہ افریقی چہرے میں بھی ھے۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ خوبصورتی محض "چہرے" میں نہیں، بلکہ وہ کائینات کی پوری تسخیر کا خواب اور جنون ہے. تب تک وہ یہی سمجھتا تھا کہ محبت چہرے کو دیکھتے ھوئے محبوبہ کے گداز جسم کو تصور میں لاتے ھوئے اُسے چھونے کا نام ہے۔ اُسے کہاں ادراک تھا کہ محبت تو ناموجود کے موجود ھونے کا نام ھے، اُسے محسوس کرنے کا نام ھے۔

من موجی اکثر کاغذ پکڑ کر پینسل گھماتا رھتا اور گول گول خطوط سے ان دیکھا گداذ جسم بنتا چلا جاتا ۔۔۔ گداز کولہے، یکلخت مختصر ھوتی کمر۔۔۔۔ اور پھر پینسل گھوم گھوم کر اُوپر اُٹھتی اور دوکبوتر سرخ چونچوں سمیت غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگتے!! من موجی وہ کاغذ جلدی جلدی یا تو چُھپا لیتا اور یا پھر پھاڑ دیتا۔ کیونکہ وہ ڈرتا تھا کہ اگر گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچیں گے۔

اُس کے اندر ہی اندر محبت سوچ کی پینسل سے گھومتی رھتی ۔۔۔ زاویے بنتے رہتے۔۔۔ کبوتر غٹرغوں غٹرغوں کرتے رھتے۔ کبھی گداز اُبھار کسی گول گول گھومتی خلاء میں ڈوب جاتے۔۔۔ اور من موجی کے ھاتھ خالی رہ جاتے۔۔۔ پینسل پھسل کر دور جا گرتی۔۔۔

اور من موجی کا جی چاھتا وہ جلتا سورج ہاتھ میں پکڑ لے!!
-------------
عمار یاسر
-------------
12 مئی 2013
------------
من موجی
------------
چاند اور دھول رات
---------------
14 ویں قسط
---------------
جوہڑ کا کنول
-------------------
آسمان ستاروں سے بھرا رھتا، چاند مسکراتا، اور نیا دن طلوع ھوتا۔۔۔ یہ سب من موجی کو کتنا اداس کر دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھبی متجسس بھی۔۔۔ آخر یہ سب کیوں تھا؟ کیا مقصد تھا اِن سب کی پیچھے؟

من دیکھتا رہ جاتا۔۔۔ ستارا جِھلملا جاتا۔۔۔ روشنی آگ برساتی اور سورج چھنگھاڑتا ۔۔۔ وہی آگ رات کو نیلی اور ٹھندی چاندنی بن جاتی۔۔۔ جو تھا وہ نہیں تھا۔۔۔ جو نہیں تھا وہ، وہ تھا۔۔۔

بدصورتی ۔۔۔ خوبصورتی کی ماں ھے، مرکز ھے۔ گندگی ہی سے بیج پھوٹتا ھے۔۔۔ جنون تڑپتا ھے توآگ بن جاتا ھے اور آگ سسکتی ھے ۔۔۔ زندگی بھاگتی ھے، تکمیل چاھتی ھے۔۔۔ مدغم ھو جانا چاھتی ھے۔۔۔۔ زندگی جنمتی ھے تو وہاں سے، جہاں پاکیزگی قدم بھی نہیں رکھتی۔ مگر زندگی کتنی اُجلی اور شاندار ھوتی ھے۔ آگ سورج ھے۔۔۔۔چاندنی چاند ھے۔۔۔ من موجی سوچتا۔۔۔۔ پینسل کیوں گندگی بنانا چاھتی ہے؟ اور جب گول گول زاویے بنتے ہیں تو گندگی کتنی حسین ھو جاتی ھے۔ انساں مٹی سے بنا۔۔۔، کچی مٹی۔۔۔ اور جب روح پُھنک گئی تو مسکرانے لگا، گیت گانے لگا۔۔۔، شاہکار بنانے لگا۔۔۔

من موجی دیکھتا رھ جاتا جب پرندے گٹروں کا گندا پانی پیتے اور خوب خوب نہاتے اور اُجلے ھو جاتے۔۔۔۔ پاکیزہ ھو جاتے۔۔۔ من سوچتا ۔۔۔ کیا پینسل سے گندی گندی تصویریں بنا نا گناہ ھے۔۔۔ اور یہ گول گول نرم لمسی وجود اتنے دلفریب کیوں‌ ہیں؟ من موجی ابھی "نفس" کو نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ نفس من موجی کے لیے ایک نامعلوم حقیقت تھی۔

وہ اکثر سوچتا یہ سب ستارے، سورج اور یہ خلا کیوں بنائے گئے؟ ستارے آگ سے کیوں بنتے ہیں، وہ کیوں مرتے ہیں۔۔۔۔ کیوں راکھ راکھ ھو جاتے ہیں؟ اور پھر راکھ کہاں جاتی ہے اور کیا ہوتی ھے؟۔۔۔ موت زندگی کا پیش خیمہ کیوں ھوتی ھے؟ زندگی کیوں موت سے ہمکنار ھوتی ھے؟ اگر موت نئی زندگی کو جنماتی ھے، تو موت اتنی المناک کیوں ھے؟ آگ کیوں ھے، گندگی کیوں‌ھے؟ موت کیوں ھے، گناہ کیوں‌ھے ؟ پینسل کیوں ھے، زاویے کیوں‌ ہیں؟ چاندنی کیوں مسکراتی ھے ۔۔۔، کنول جوہڑ میں کیوں کھلتا ھے؟ ۔۔۔۔ لذت کیوں ‌ھے؟

من موجی کو عام سا پھتر مورتی کیوں لگتا؟ ۔۔۔ دیوار پر بنتی لائین شکل کیوں لگتیں ۔۔۔؟ ۔۔۔۔ گندگی میں خوبصورتی کیوں نظر آتی۔۔۔ غربت میں تخلیق کیوں محسوس ھوتی؟

نا جانے من موجی کا دل کیوں کرتا تھا ۔۔۔۔ کہ وہ کسی اجنبی حسین مورت کو اپنے پاس بلاے اور وہ اُس کو اپنے بنجر ہاتھ پر ساری ریشم رکھ کر بیٹھ جانے کو کہے ۔۔۔ ناجانے کیوں من موجی کو گندگی سے اتنا پیار کیوں ھو چلا تھا۔۔۔۔؟
-------------
عمار یاسر
-------------
30 مئی 2013
------------
من موجی
------------

image