urduliterature Cover Image
urduliterature Profile Picture
13 Membros

قیمت
....
جانی جب گتے کی فیکٹری سے کیبل کی تاریں اتار رہا تھا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پکڑا جائے گا. اُس کی سوچ یہاں تک بھی نہیں جا سکتی تھی کہ اُس کے نحیف و نِزار پنجر جسم پر اتنی لاتیں اور گھونسے پڑیں گے کہ ساری قوت جاتی رہے گی.

جانی کو پائوڈر پیتے ہوئے کوئی چار پانچ سال ہو چکے تھے. وہ شہر کی کچی بستی جو اب بتدریج پکی ہوتی جارہی تھی, سے تعلق رکھتا تھا. پڑھائی لکھائی سے اُسے کوئی رغبت نہ تھی۔ شاید وہ نشے کی لت میں نہ پڑتا اگر پروین اُس کو محبت کی ادھوری راہ سے چھوڑ کر نہ جاتی. وہ صرف تین گلیاں چھوڑ کر جانی کے ہی محلے میں رہتی تھی. پروین جانی کو کبھی نہ چھوڑتی اگر جانی کتھے والا پان کھا کر اُس کا منہ خراب نہ کیا کرتا. پروین کا منہ خراب ہوتا, تو سارا مزا کِرکرا ہو جایا کرتا تھا. اُس نے کئی بار جانی کو منع بھی کیا کہ وہ اپنا منہ پان دان بنا کر اُس کے پاس نہ آیا کرے, مگر وہ باز کب آتا تھا. سگریٹ اور پان کی سڑی بو سے پروین کا اپنا منہ گٹر سا ہو جایا کرتا تھا. پھر اُس پر طرّہ یہ کہ وہ بے روزگار بھی تھا. محلے کے موالیوں اور اُچکوں کے ساتھ اُس کا اٹھنا بیٹھنا تھا.

اگرچہ پروین کے باپ نے براہِ راست پروین سے جاوید عرف جانی سے متعلق کوئی بات نہ کی تھی, مگر جب جب پروین دوائیوں کی فیکٹری سے ڈیوٹی ختم ہونے پر شام کو زرا لیٹ آیا کرتی تو ناجانے اُس کے باپ کو کیسے خبر ہو جایا کرتی تھی, اور وہ پروین کو غصے کی نگاہوں سے کریدنے لگتا, جیسے کہہ رہا ہو کہ پینو مجھے پتا ہے تُو آج جانی حرام خور سے مل کر آئی یے.

آخر پروین کی ماں کے سمجھانے بجھانے پر, پروین کو اندازہ ہونے لگا کہ نہ جانی نے سدھرنا ہے نہ اُس کے باپ نے رشتے کے لیئے ہاں کرنی ہے. پھر کراچی سے پروین کے چاچے کا بیٹا بھی فیصل آباد سے آیا ہوا تھا. کراچی میں اُس کا پرانے ٹائروں کا کاروبار خاصا چل نکلا تھا. پروین کو کراچی ویسے بھی بہت پسند تھا. بچپن میں وہ ایک دفعہ گھر والوں کے ساتھ کراچی گئی تھی. سمندر پر جا کر تو اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رھ گئیں تھیں, اتنا پانی, اتنا پانی کہ اُس کی آنکھوں میں نہ سماتا تھا.

اب جب سے پرویز کراچی سے آیا تھا, وہ ہر روز شام کو پروین کے گھر آجایا کرتا تھا. پروین کی ماں اُس کی بڑی آئو بھگت کرتی. عصر کے بعد پروین کا باپ مرغی کا گوشت لے آتا یا کبھی بچھڑے کا. پھر وہ کھانا کھا کر کوئی نو بجے واپس جاتا تھا. جب پروین کی ماں باتیں کرتے کرتے نیند سے بوجھل ہو کر سونے لگتی تو پروین اور پرویز خاموش ہو جاتے, اور ساتھ والے کمرے میں بچپن کی پرانی باتیں دھراتے. پرویز کی آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح خاموش باتیں کرتی تھیں, اور پروین کا جسم کپروں میں ہونے کے باوجود گرمی کی سہ پہروں کی طرح تپتا رہتا تھا.

جب پرویز کراچی واپس جانے لگا تب تک سانپ سہ پہر کی تپتی دھوپ میں اپنی کینچلی مکمل طور پر اتار چکا تھا. شاید پروین جانی کے منہ کی بدبو برداشت بھی کر لیتی, مگر عورت کی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ سانپ کی اتری کینچلی کی زہریلی خاموشی سے تر بتر ہو جائے تو گونگی ہو کر۔ صرف اُسی سانپ سے بار بار ڈسنا چاہتی ہے.

بس جانے سے پہلے پرویز چپکے سے جون کی دوپہر جلتی دھوپ میں پروین کے دروازے تک آیا, اور پروین کے پسینے سے بھیگے جسم کو بھینچ کر جاتے وقت کہہ گیا تھا کہ اب وہ جاڑے میں بارات لے کر آئے گا.
....
پروین کے بدلے تیور دیکھ کر جانی کے اوسان خطا ہو گئے, وہ نہ سر سے رہا نہ پائوں سے. وہ گرم دوپہروں میں مٹی مٹی ہو گیا, جو کھلے میدانوں سے لو کے ساتھ ہوتے ہوئے گلیوں میں دوڑتی پھرتی تھی اور پھر پرے دور سورج سے سہمے سبز مرجھائے کھیتوں کے سروں پر ساری مٹی جھاڑ دیتی. غم اور دکھ اُسے ڈسنے لگے. میدانوں میں کتنی ہی خشک کینچلیاں ہوا سے مٹی سے رگڑ کھاتی نظر آتیں. وہ بے خود ہو کر کسی چوڑے درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ کر اپنا غم بھرے سگریٹوں سے دھواں کرتا رہتا.

شاید وہ صرف بھرے سگریٹ پیتا رہتا مگر جب پروین بیاہ کر کراچی چلی گئی, تو اُس کے حوصلے کی کمر ہی ٹوٹ گئی. پھر خود سے بے مہر ہو گیا. یونہی گھر سے بے گھر .... باپ تو پہلے ہی دنیا سے جا چکا تھا, ایک ماں تھی اور ایک بہن, وہ دونوں اُس کے غم میں گُھلتی رہتیں. وہ اُسے نشے کی حالت میں گلی محلے سے گھسیٹ اٹھا لاتیں, سمجھاتیں, بجھاتیں, مگر اُس کی تو آوارگی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی تھی.

آخر ایک دن اُس کی ماں اسی غم سے جان کی بازی ہار گئی. اکیلی جوان بہن کب تک تن تنہا رہتی. محلے کے بزرگوں نے اُسے ایک عمر رسیدہ شخص سے بیاہ کر فرض پورا کیا. اب جانی کی پرواہ کرنے والا کوئی نہ تھا. اِس سارے عرصے میں صرف ایک دفعہ ہی پروین کراچی سے آئی, اور پھر چند دن بعد واپس پرویز کے ساتھ لوٹ گئی.
....
اب نشے کی لت پوری کرنے کے لیئے, جانی چھوٹی موٹی چوری چکاری کرتا, اور پھر سارا سارا دن کبھی کسی محلے اور کبھی کسی گلی کو اپنا ڈیرہ بنا لیتا. کچھ ماہ سے وہ شہنشاہ گتا فیکٹری کے آس پاس ہی پایا جاتا تھا. وہ راہگیروں سے مانگ تانگ کر نشے کی لت پوری کرنے لگا, مگر پچاس سو سے گزارا کہاں ممکن تھا. راہگیر کسی بزرگ اور جوان لڑکی کو تو بھیک دینے پر راضی نظر آتے تھے, مگر ایک نشئی کو بھیک دینے کا مطلب یہ تھا کہ اُس کو نشے کی بِلاواسطہ سہولت محیا کرنا. اب اُس نے آس پاس کی چھوٹی موٹی فیکٹریوں سے کیبل تاریں چُرانا شروع کر دیں. کبھی کوئی لوہے کا پرزہ چرا لیتا, کبھی کھڑے ٹرک سے کوئی شے اٹھا لیتا.

اُس روز کوئی ساڑھے بارہ بجے رات اُس نے شہنشاہ گتا فیکٹری سے کیبل کی تار چرانے کا فیصلہ کیا تھا. اُس نے کسی نہ کسی طریقے سے الیکٹریشن کی دوکان سے کٹر خریدا, اور رات کا انتظار کرنے لگا. کوئی بارہ بجے وہ پچھلی گلی سے ایک درخت کے تنے کا سہارا لے کر دیوار پر چڑھا, اور دیوار سے متصل ایک کمرے کی چھت پر ایک درخت کی گھنی شاخوں تلے جا کر لیٹ گیا. تھوڑی ہی دیر بعد جب شفٹ تبدیل ہوئی تو پوری فیکٹری میں خاموشی چھا گئی. چھت پر کیبل تاروں کا بھاری گُچھا پڑا تھا. بھاری ہونے کی بنا پر وہ اُسے نیچے اتار نہیں سکتا تھا. اُس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک مناسب لمبائی کو کاٹ کر دیوار سے نیچے گِرا دے گا, اور پھر درخت کے تنے سے نیچے اتر جائے گا.

بڑی محنت مشقت کے بعد, بِلا آخر اُس نے مطلوبہ لمبائی کی تار کاٹ ہی لی. پھر اُسے احتیاط سے گول گول گھما کر گُچھا بھی بنا لیا. ابھی اُس نے وہ نیچے پھینکا ہی تھا کہ زرا دور اُسی دیوار کے ساتھ فیکٹری کے میں گیٹ پر متعین چوکیدار چوکنا ہو گیا. وہ دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سنائی دی گئی آواز کے مقام پر پہنچا تو اُس نے کیبل تار کا گُچھا گِرا دیکھا. چوکیدار کی تجربہ کار آنکھوں نے درخت کے تنے سے تیزی سے اترتے ہوئے جانی کو دیکھ ہی لیا. اُس نے جانی کو للکارا تو جانی دھڑام سے نیچے گِر پڑا. چوکیدار نے شور مچا دیا. آس پاس کی فیکٹریوں کے چوکیدار یوں بھاگتے ہوئے آئے جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو.

جس جس کا بس چلا, اُس نے لاتوں اور گھونسوں سے جانی کے جسم کا حلیہ بِگاڑ دیا. جانی درد سے بِلبلا رہا تھا. نشئی اور چور کو مارنے کا حق کو پیدائشی حق سمجھتے ہوئے, ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا پُرتشدد فرض ادا کر رہا تھا. جب وہ نڈھال ہو کر گِر پڑا تو چوکیدار اور فیکٹری کے تین ملازم اُسے گھسیٹ کر میں گیٹ کے ساتھ تعمیر چھوٹے سے کمرے میں لے آئے. اِس دوران وہ چاروں اُسے ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے, اور ساتھ ساتھ لاتوں سے تواضع بھی کر رہے تھے. اُن تین افراد میں سے ایک شخص سُپروائزر تھا. اُس نے فیکٹری کے مالک جمشید جمال کو فون کیا, اور اُسے ساری صورتِ حال بتائی. اُس نے جمشید جمال سے کہا کہ وہ آ جائے تا کہ پھر اِسے پولیس کے حوالے کیا جا سکے. پہلے تو جمشید جمال نے کہا کہ بس مار کٹائی کر لی, اب نشئی کو چھوڑ دیا جائے, مگر سُپروائزر نے اپنی فرض شناسی اور وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے تجویز دی کہ سر اگر چھوڑ دیا تو کل یہ کوئی اور بڑی کاروائی کرے گا, اور یہ کہ پولیس کے حوالگی کے لیئے فیکٹری مالک کا ہونا زیادہ مناسب لگے گا.

جب جمشید جمال ڈھائی بجے فیکٹری پہنچا تو بظار جانی کے ہوش بحال ہو چکے تھے. جمشید جمال نے پہلے تو جانی کو لمبا لیکچر دیا, پھر ایک تماچہ اُس کے منہ پر جڑ دیا. اِس کے بعد چوکیدار سے کہا کہ نشئی کو فیکٹری سے باہر دھکیل کر مین گیٹ بند کر دے. چوکیدار نے ایسا ہی کیا. مگر جانی فیکٹری سے باہر جانے پر راضی نہ تھا بلکہ وہ زور آزمائی کرنے لگا. پھر جب گھسیٹ گھساٹ کر اُسے باہر نکالا بھی, تو وہ دربارہ درخت کے پاس پہنچ کر اُس کے تنے سے دیوار پر چڑھنے کی لاحاصل کوشش کرنے لگا. جب چوکیدار نے یہ دیکھا تو جمشید جمال کو آگاہ کیا کہ وہ نشئی ہے, اُس کو نشے کے لیئے کوئی نہ کوئی ایسی چیز چاہیئے ہے جسے وہ صبح کو بیچ کر اپنا نشہ پورا کر سکے. جمشید جمال غصے سے بل کھاتا ہوا, چوکیدار کے ساتھ درخت کے پاس پہنچا, اور جانی پر پُھنکارنے لگا.

جانی کے نیچے گِرتے ہی جمشید جمال نے دو چار لاتیں اُس کے پیٹ پر پوری قوت سے جڑ دیں.
....
صبح کو پولیس نے اپنی کاروائی مکمل کرنے کے بعد ایدھی ایمبولینس کے زریعے لاش پوسٹ مارٹم کے لیئے ہسپتال پہنچا دی.

شام تک جمشید جمال, چوکیدار اور سُپروائزر سمیت کل پانچ افرد اقدامِ قتل کے الزام میں گرفتار کر لیئے گئے. سب کو لینے کے دینے پڑ گئے. سی سی ٹی وی میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ کس کس نے لاتیں اور گھونسے چلائے تھے. جنشید جمال کی لاتوں نے تو جانی کی جان ہی نکال دی تھی.
....
پولیس نے صاف صاف پچیس لاکھ کا مطالبہ کیا کہ وہ تمام ملزمان کو ایف آئی آر کاٹے بنا ایک چور اچکے کو پکڑنے اور اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کی بنیاد پر چھوڑ سکتی ہے. مگر اتنی رقم کا فوری طور پر بندوسبت کرنا جمشید جمال کے لیئے ممکن نہیں تھا. بلا آخر تین لاکھ پر معاملہ طے ہوا.
...
جانی جو معاشرے کے گلتے سڑتے جسم پر پھوڑا تھا, زندگی سے مُکت ہو کر اپنی بے فیض قیمت لگوا گیا تھا.

جب جانی کی بہن اُس کی قبر پر سر رکھے ہجکیوں سے رو رہی تھی, تو اُس کا سفید ململ کا دوپٹہ گرم لو سے پھڑپھڑا رہا تھا. زرا چند قدم پر کھڑا اُس کا عمر رسیدہ شوہر پان چباتے ہوئے کسی سے لین دین کی باتیں کر رہا تھا. ناجانے کب سڑی پیک کے بدبودار چھینٹے جانی کی بہن کے سفید پھڑپھڑاتے دوپٹے پر گِر کر جذب ہو گئے اور بدبو کا ایک بھبھکا اُس کو چکرا سا گیا.
....
عمّاریاسر
26 اپریل 2024
نوٹ: یہ افسانہ ایک حقیقی نشئی کی موت پر افسانوی رنگ سے لکھا گیا ہے.

image

غزل

پال کر پوس کر رکھا ہوا
دل کسے چاہیئے ٹوٹا ہوا

جب بھی گزرا اجاڑ رستے سے
چوک میں کوئی تھا بیٹھا ہوا

بارہا یوں ہوا ہے اکثر کہ
اُس نے سوچا میرا سوچا ہوا

کون لے جائے گا سجانے کو
اِک میرا دل جو ہے ٹوٹا ہوا

یاد بھی اِک کتاب ماضی کی
وعدہ مجھ سے کیا بھولا ہوا

وہ کوئی خواب تھا, حقیقت تھا
وہ کوئی خواب تھا دیکھا ہوا

بالا منزل عمارتوں کے تلے
جا رہا کون تھا الجھا ہوا

وہ میرا تھا یوں آسمانوں سے
اِس زمیں پہ نہیں میرا ہوا

ہات میں تھام کر وہ اِک بادل
تھا صبا نے کہا برسا ہوا

اُس کے نینا بھرے کٹورے سے
کتنا بے بس تھا وہ اِک ترسا ہوا

رات کی یاد میں معطر سا
خوش بدن تھا کوئی مہکا ہوا

عمّاریاسر
21 مارچ 2024

image

غزل

بدل گئے ہیں راستے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے
ہوں جفا کے سلسلے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

دوستوں کے درمیاں ہو پیار بھی تو وقت پر
زندگی کے واسطے پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

ہو رقیب کا ستم جو ایک دل کو توڑ دے
ہوں جو ایسے معاملے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

مان کر دلیل کو, ٹوٹ جائے کوئی دل
چین پھر نہ مل سکے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

سیدھی سیدھی بات کا, کیا راستہ, کیا واسطہ
سینے میں ہوں دائرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم مگر یونہی نہیں آج آئے ہو یہاں کہ اب
سب عیاں ہے آنکھ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

تم میرے قریب ہو, اس قدر کہ اس قدر
ہائے شوخ شوخ سے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

پیار میں قرین ہے زندگی کے چین کو
نین ہیں بھرے بھرے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

کل ہی تو گئے ہو تم اب کہاں تم آئو گے
پھر نصیب کِھل پڑے, پھر جھوٹ ہونا چاہیئے

عمّار یاسر
25 فروری 2024

image

غزل

وہ اپنی پلکیں اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں
وہ شام ہنس کے سجا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اِس لیئے بھی تو منہ کو چھپائے پھرتے ہیں
وہ بھر کے جام پلا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم اپنے آپ میں بیٹھے ہیں بت کی صورت کیوں؟
وہ اپنی پلکیں گِرا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا ہے اُس کے بھی دل کو ہاں چوٹ گہری ہے
وہ دل سے اپنی سنا دے تو کوئی جائے کہاں

اٹھا ہے غدر قیامت کا اے رفیقِ سفر
دیوار ہم پہ لگا دے تو کوئی جائے کہاں

ہم در بدر سے جو پھرتے ہے آہ و زاری سے
وہ پردہ اپنا اٹھا دے تو کوئی جائے کہاں

تلاشِ خوباں کی عجلت میں دل سے ہار گئے
کوئی تو اُس کا پتا دے تو کوئی جائے کہاں

سنا یے بس میں خدائی کے سارے رستے ہیں
ہمیں بھی راہ سے مِلا دے تو کوئی جائے کہاں

یہ شوقِ دیدِ تمنا ہے اب بھی قائم کیوں؟
وہ اپنا چہرہ دِکھا دے تو کوئی جائے کہاں

عمّاریاسر
11 فروری 2024

image

غزل

کٹ کے ہات میں کھل جاتا ہے, پھول ہے یا اِک زخم کوئی
آپ ہی آپ سے ہو جاتا ہے خواب ہے یا اِک وہم کوئی

میں تو رات کو لوٹا تھا اور, وہ تو صبح کا تارا تھا
عام سی صورت, عام سی باتیں, کون کہاں تھا اہم کوئی

بارش تو بس دن کی ہی تھی, رات کو موسم بے کل تھا
کھول کے دروازہ اِک صورت, کچھ تو کر دے رحم کوئی

کھڑکی کے وہ پاٹ کھلے تھے, زلف تھی بکھری رات کوئی
چاہت, الفت, شدت, وحشت, پیار میں کیا زی فہم کوئی

چھو کر دیکھو, چاہ کر دیکھو, روح پائو گے, آئو گے
لطف کی صحبت, آگ کی لذت, خاک یہاں ہے لحم کوئی

سوچ پریشان, بات نمایاں, لفظ سنہرے, ہونٹ گلاب
عریاں عریاں شوق نئے اور, سُر کی لے ہے شرم کوئی

رات مسافر, ریل, مسافت, دور کہیں پہ منزل تھی
الجھی الجھی لفظ کی بُنت, بنتی کیا پھر نظم کوئی

عمّاریاسر
10 فروری 2024

image